Google_plus Pinterest Vimeo RSS

جنگجوؤں کو کنٹرول کرنے میں رکاوٹ کیا؟

جنگجوؤں کو کنٹرول کرنے میں رکاوٹ کیا؟

بہت سے پاکستانی ابھی بھی حملے کا الزام طالبان پر لگانے سے جھجکتے ہیں
اگرچہ پشاور میں سکول کے بچوں کے قتل نے بہت سے پاکستانیوں کو غم میں تو اکٹھا کر دیا ہے لیکن ابھی ایک بڑی تعداد ہے جو کہتی ہے کہ ان کو نہیں معلوم کہ حملہ کن لوگوں نے کیا تھا۔
تاہم پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کے لیے یہ بات بالکل صاف ہے کہ کام پاکستانی طالبان کا تھا۔
نہ صرف تنطیم نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے بلکہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے ایک ایسا پیغام بھی ریکارڈ کیا ہے جس میں قتل کا حکم دینے والے سکول کے اندر حملہ آوروں سے گفتگو کر رہے ہیں۔
آئی ایس آئی نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ فون افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے رہنما کی طرف سے آئے تھے۔
لیکن پشاور میں جن لوگوں نے حملہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ بھی طالبان کا نام لیتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں۔
نہ صرف انھیں طالبان سے ڈر لگتا ہے بلکہ وہ ان سیاسی رہنماؤں کی بھی نقل کر رہے ہیں جنھوں نے طالبان کا نام لینے اور ان کی واضح طور پر مذمت کرنے سے چپ رہنا بہتر سمجھا ہے۔
پشاور قتلِ عام کے روز بھی وزیرِ اعظم نواز شریف نے طالبان کی مذمت نہیں کی بلکہ صرف دہشت گردوں کی طرف اشارہ کیا۔
سوشل میڈیا اور گلیوں میں ایک اور بات بھی کہی جا رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انڈیا اور افغان خفیہ ایجنسیوں کا کام تھا۔
کیونکہ کچھ حملہ آوروں کی شکلیں وسطی ایشیا کے باشندوں جیسی ہیں اس لیے یہ کہنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے کہ حملے میں غیر ملکی ہاتھ تھا۔
سکول قتلِ عام کے بعد اسی قسم کی باتیں کی جا رہی ہیں جس قسم کی ملالہ یوسفزئی پر حملے کے بعد کی گئی تھیں۔
ابتدائی صدمے کے بعد پاکستان میں زیادہ تر لوگ سمجھنے لگے تھے کہ ملالہ مغربی دنیا کے لیے کام کرتی ہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سکول میں قتلِ عام سے رائے عامہ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
جب ایک انتہا پسند ملا نے حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تو لوگ اسلام آباد میں ان کی مسجد کے سامنے اکٹھے ہو گئے اور طالبان مخالف نعرے لگانے لگے۔
فوجی
فوج سول انتظامیہ پر اعتبار نہیں کرتی اور سول انتظامیہ فوج پر
یہ ایک نئی بات ہے۔ لیکن ابھی بھی کوئی سرکردہ رہنما اس نقطے پر کھلے عام عوام کی رہنمائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ سول اور فوجی رہنما منقسم ہیں۔
سیاستدانوں کے پاس کئی وجوہات ہیں کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف جنگ فوج ہی کو لڑنے دیں۔
نجی طور پر سیاستدان کہتے ہیں کہ کیونکہ سکیورٹی پالیسی کا کنٹرول فوج کے پاس ہے اس لیے جنرلز کا سول انتظامیہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ فوج کے فیصلوں کی ذمہ داری لے بھی ایک نامعقول بات معلوم ہوتی ہے۔
اور سیاسیتدان بھی اس فوج پر بھروسہ نہیں کرتے جس نے کئی حکومتوں کو فوجی انقلاب کے ذریعے ختم کیا۔
حالیہ وزیرِ اعظم کو بھی ایک فوجی صدر نے اقتدار سے محروم کرنے کے بعد پہلے جیل میں بند کیا اور اس کے بعد ملک بدر کیا تھا۔
نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا بڑا عوامی مینڈیٹ ہونے کے باوجود فوج نے 2013 میں ان کے اقتدار میں واپس آنے کو قبول نہیں کیا ہے اور ایک مرتبہ پھر انھیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ اکثر سیاستدان طالبان سے ڈرتے بھی ہیں۔
جس ایک پارٹی نے طالبان کو سیاسی طور پر چیلنج کیا وہ پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی ہے۔ لیکن اسے اس کی وجہ کئی حملوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں اس کے متعدد سینیئر رہنما ہلاک ہوئے۔
لیکن اگر سیاستدان فوج پر شک کرتے ہیں تو فوج بھی ان پر بھروسہ نہیں کرتی۔ فوج کے اکثر آفیسر پاکستانی وزیروں اور پارلیمانی اراکین کو کرپٹ اور اخلاق باختہ سمجھتے ہیں۔
ٹی ٹی پی
پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان وہاں مقیم ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کرے
فوج میں اس بات پر بہت غصہ ہے کہ جب طالبان سے لڑتے ہوئے فوجی اپنی جان دیتے ہیں تو سیاستدان پبلک میں ان کی قربانیوں کو نہیں سراہتے۔
وزرا شاذ و نادر ہی فوجی ہسپتالوں میں جا کر زخمی ہونے والے فوجیوں کی عیادت کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے لے کر اب تک تقریباً پچاس ہزار کے قریب پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان میں سے فوجیوں اور پولیس والوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہے۔
فوج کے سربراہان اکثر یہ کہتے ہیں کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو سیاستدانوں کو فوجی آپریشن کے حق میں پاکستانیوں کی رائے عامہ کو بہتر کرنا ہو گا۔
پاکستان میں اس وقت 30 کے قریب اہم جنگجو گروہ ہیں اور ان کا اپنا سیاسی ڈھانچہ، فنڈنگ اور نظریاتی اور سیاسی مقاصد ہیں۔ ان میں سے تین سب سے زیادہ طاقتور گروہوں میں افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور لشکرِ طیبہ۔
اکثر مغربی اور انڈین مبصرین الزام لگاتے ہیں کہ پاکستانی فوج کئی گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مثال کے طور پر افغان طالبان کی حمایت کر کے وہ یہ یقین بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے متعلق جارحانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں پر دباؤ رہے یا لشکرِ طیبہ کی حمایت کر کے وہ انڈین کشمیر میں اپنے خارجی مقاصد حاصل کر سکے۔
فوج ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کچھ سال پہلے سے فوج ٹی ٹی پی کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔
سنہ 2009 تک شمال مغربی پاکستان میں ٹی ٹی پی 18 انتظامی یونٹوں پر قابض تھی لیکن فوجی آپریشن سے شمالی وزیرستان سے بھی نکال دیا باہر کیا گیا ہے۔
پشاور سکول حملے کے فوراً بعد پاکستان فوج کے سربراہ راحیل شریف نے کابل کا دورہ کیا۔ افغانستان میں مقیم ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
وہ اپنے ساتھ سکول پر حملے کے دوران ریکارڈ کی گئی وہ گفتگو بھی ساتھ لے گئے۔
لیکن ان کی اس درخواست پر عمل کرنا بھی ایک مشکل کام ثابت ہو گا۔ اپنی زمین پر ٹی ٹی پی قیادت کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے پہلے افغان حکومت چاہے گی پہلے پاکستان اپنی سرزمین پر افغان طالبان کی قیادت کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔
بہت عرصے سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں سینیئر افغان طالبان پناہ لیے ہوئے ہیں۔

0 comments: