Google_plus Pinterest Vimeo RSS

Bullets Cant Bring Peace..Message to Pakistan & India

جنگ کے علاوہ 6 کام جو انڈیا اور پاکستان کر سکتے ہیں



دونوں ممالک ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ دونوں نے اپنا سفر بھی ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ دونوں کی تاریخ ایک ہی ہے، جبکہ کئی مقامات پر دونوں کا کلچر بھی ایک ہی جیسا ہے۔ دونوں اس بات کو جانتے ہیں، اور دنیا بھی یہ جانتی ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر کیا کر سکتے ہیں۔
لیکن اب بھی یہ لگتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ہی ایک دوسرے سے لڑنا اور ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ترقی کی جانب سفر شروع کیا جائے۔
لیکن اگر دونوں ممالک جنگ کے بجائے ترقی کرنا چاہیں، تو وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ جنگ سے ہٹ کر 6 چیزیں ایسی ہیں جو انڈیا اور پاکستان کر سکتے ہیں۔
1۔ لوگوں کے درمیان رابطوں کو بڑھانا۔
ہمیں اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ انتہاپسندی اور نفرت کی آگ دونوں جانب موجود ہے، اور ان غلط فہمیوں، نفرت، اور لیبلنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک ہی حل ہے، وہ یہ کہ لوگوں کو لوگوں سے رابطے کرنے دیے جائیں، جس میں میڈیا کے جانبدارانہ موقف شامل نہ ہوں۔
حکومتوں کو چاہیے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفر کو آسان بنائیں۔ ویزا کے حصول میں آسانی پیدا کی جائے، سیاحوں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے، طلبا اور اساتذہ کے ایکسچینج پروگرام شروع کیے جائیں، دانشوروں، پروفیشنلز، اور آرٹسٹس کو آزادی دی جائے کہ وہ مختلف پروگراموں، کنسرٹوں، نمائشوں، اور ایونٹس میں شرکت کرسکیں۔ اس کے علاوہ مشترکہ تصنیفات کی جائیں، (تعمیری) تنقید کی اجازت دی جائے، اور آنے والوں کو ریسرچ اور اپنے تجربات لکھنے کی آزادی دی جائے۔
جتنی زیادہ ڈسکشن ہوگی، اتنی ہی زیادہ اعتماد کی فضا قائم ہوگی اور منفی پروپیگنڈا کو شکست ہوگی۔ ویسے بھی 67 سالوں میں ہم نے زیادہ نقصان دوسروں کے پروپیگنڈا کے بجائے اپنے ہی پروپیگنڈا سے اٹھایا ہے۔
2۔ آزادانہ تجارت
تجارت کی راہ میں تمام بیوروکریٹک اور دیگر رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔ انڈیا کو پاکستان میں مارکیٹ تک رسائی دی جانی چاہیے۔ مختلف قابلِ تجارت اشیا کے لیے الگ الگ ٹریڈ روٹ بنائے جائیں جو 24 گھنٹے آپریشنل رہیں۔ ڈیوٹی ٹیکس کم کیا جائے، جبکہ کسٹمز کلیئرنگ کے مراحل کو آسان اور بہتر بنایا جائے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ انڈیا کی مارکیٹ پاکستان سے بہت زیادہ بڑی ہے، لیکن پھر بھی برابری کی بنا پر تجارت ممکن ہوسکتی ہے اگر حکومت درست پالیسیاں اختیار کرے۔ آٹو موبائیل، ٹیکسٹائل، اور دیگر سیکٹرز میں ایکسپورٹس اور پارٹنرشپس دونوں ممالک کی تجارت کو فروغ دے سکتی ہیں۔
3۔ بٹوارے کی کہانی ایک ساتھ سنائیں۔
کیا ہم نے ایک دوسرے کو بہت زیادہ بدنام نہیں کر لیا؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کو نفرت کی بہت زیادہ تعلیم نہیں دے لی؟ اب ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک بہتر کہانی بھی سنانی چاہیے، جس میں یہ بتایا جائے کہ کیسے تقسیم کے وقت لوگوں نے ایک دوسرے سے مذہبی اور علاقائی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو بچایا۔
دونوں ممالک کے ماہرینِ تعلیم اور تاریخ دانوں کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے بچوں کے لیے ان واقعات کو کھوج نکالنا چاہیے جس میں تمام تر مشکل حالات اور نفرت کے ماحول کے باوجود کئی لوگوں نے انسانیت کے جذبے کے تحت لوگوں کی جانیں بچائیں۔
اپنی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں انڈیا اور پاکستان کے لوگ ایک ہی رہے ہیں۔ ہاں اب ہم الگ ضرور ہیں، لیکن ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں، کیونکہ ہم کئی جگہوں پر ایک ہی کلچر رکھتے ہیں۔
تو چلیں بچوں کو بٹوارے کی کہانی ایک بالکل نئے انداز میں سنائیں۔ اسکولوں کے نصابوں کو سیاسی پروپیگنڈا سے پاک کر کے ایسا نصاب اور ایسی فلمیں بنائیں، جو لوگوں کی کہانیاں بیان کرتی ہوں، نہ کہ نظریات کی۔ وہ کہانیاں بیان کریں، جن میں صدیوں سے مل جل کر رہنے اور ساتھ منائے گئے خوشی اور غموں کے لمحات کی باتیں ہوں، نا کہ کچھ دہائیوں کی تفریق کی۔
بھلے ہی اب ہم دو نیشن اسٹیٹس ہیں، لیکن زندگی کی جانب ہمارا رویہ، ہمارے کلچر، رسم رواج، کھیلوں کے لیے ہمارا جذبہ، آرٹس سے ہمارا لگاؤ، دوستی، مہمان نوازی، اور برداشت کی قدریں، اور ترقی کی امنگ ایک جیسی ہی ہے۔
آئیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے بچے اس بات کو جانیں کہ ہم حقیقت میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے بجائے عزت کرنا سکھائیں کیونکہ ہمارا کام یہی ہے۔
4۔ زیادہ سے زیادہ اسپورٹس مقابلے
پاکستانی اور انڈینز زیادہ تر ایک ہی طرح کے کھیل کھیلتے ہیں۔ کرکٹ، فٹبال، والی بال، کبڈی، ٹینس، پولو، اسنوکر، برج، اور ایک نہ ختم ہونے والی لسٹ۔ کئی دہائیوں سے ہمارے اسپورٹس مین ایک دوسرے کے ساتھ سخت مقابلے کرتے آئے ہیں۔
پھر ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیوں نہ کھیلا جائے؟ صرف پروفیشنل سطح پر نہیں، بلکہ اسکولوں اور کالجوں کی ٹیموں کو بھی دونوں ممالک میں مختلف کھیلوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس مقام پر حکومتوں کو چاہیے کہ وہ آسانیاں پیدا کریں، اور کھیلوں کے میدان میں ویزوں کو رکاوٹ نہ بننے دیں۔
5۔ باہمی مسائل کو مل جل کر حل کیا جائے
دنیا بھر میں نوزائیدہ جمہوریتوں کو ایک ہی جیسے مسائل درپیش ہوتے ہیں، خاص طور پر پاکستان اور انڈیا میں سماجی مسائل تقریباً ایک ہی طرح کے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے کلچر میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔
تو حکومتیں اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے کیوں ان مسائل کو ایک ساتھ حل نہیں کرتے؟ کم عمری میں شادیوں کے خلاف ایک مشترکہ آواز بلاشبہ ایک آواز کے مقابلے میں زیادہ اثر انگیز ہوگی۔
کیوں نہ اپنے وسائل اور توانائی کو ایک ساتھ استعمال کیا جائے؟ جنسی زیادتی، استحصال، اور جنسی ناانصافیوں کے خلاف کیوں نہ مل کر مذمت اور اقدامات کیے جائیں؟ یہ سب جارحانہ انداز میں، اور ایک ساتھ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ہم مشترکہ پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں، اور مل کر حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔
تعلیم کی کمی، بیماریاں، تفریق، استحصال، غربت، اور بیروزگاری، یہ وہ مسائل ہیں جنہیں دونوں ممالک آرام سے ختم کرسکتے ہیں۔
ہم دنیا کی دو بڑی آبادیوں میں سے ہیں، اس لیے ہمیں خوراک کی کمی اور موسمی تبدیلیوں کے خطرات کا سامنہ ہے۔
اگر ہم ساتھ نہیں کھڑے ہوئے، تو ہم شاید کھڑے بھی نہ رہ سکیں۔
6۔ تنازعات بیچنے بند کریں
انڈیا اور پاکستان کی جنگ نہ صرف ناقابلِ عمل ہے، بلکہ یہ اقتصادی طور پر بھی ناممکن ہے۔
لیکن پھر بھی دونوں ممالک میں موجود خفیہ طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سرحدوں پر تنازعات بڑھاتے رہتے ہیں، اور اپنے اپنے ممالک کی عوام کے ذہنوں میں نفرت کی آبیاری کرتے ہیں۔
حکومتوں اور میڈیا کو چاہیے کہ عوام کو سچائی کے ساتھ تمام حالات سے آگاہ کریں۔
ہاں انتہاپسندی موجود ہے، دہشتگردی ہے، دراندازی ہے، عدم برداشت ہے، اور شاید ایک ملک نے اس پر دوسرے ملک سے زیادہ قابو پایا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے عوام یہ جانیں کہ دہشتگرد عناصر صرف کچھ افراد ہیں، اور ریاستیں کبھی بھی دہشتگردی کو پروان نہیں چڑھنے دیں گی۔
یہ تب تک نہیں ہوگا جب تک دونوں جانب سے جنگی جنون رک نہیں جاتا۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ خود کو بار بار ایٹمی قوت کہلوانے سے گریز کریں۔ کیا ایٹمی ہتھیار ساتھ والے ملک پر استعمال کیے جاسکتے ہیں؟ کیا ان کے اثرات اپنے ہی ملک تک نہیں آئیں گے؟ اگر ہاں تو پھر اس جنون کا کیا فائدہ ہے۔
ہمیں سرحدوں پر جاری ٹینشن کے لیے بھی ایک قابلِ عمل حل ڈھونڈنا ہوگا۔ بھلے ہی ابھی نئی دہلی اور اسلام آباد سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بارش ہورہی ہے، لیکن سرحد پر تنازعے سے نقصان دونوں جانب کے غریب عوام کو پہنچ رہا ہے۔
دونوں ہی ممالک کو اپنی جنگی بیان بازی کو ٹھنڈا کر کے ایک دوسرے کی خودمختاری کی عزت کرنی چاہیے، جبکہ ایک دوسرے کے لیے نرم پالیسیاں اور معاہدے طے کرنے چاہییں۔
اگر سندھ طاس معاہدے کے باوجود سیلابوں کا خطرہ باقی رہے، تو اس پر نظرِ ثانی کریں۔
اگر پڑوسی ملکوں کے ماہی گیر آپ کی سمندری سرحدوں میں اکثر آجاتے ہیں، تو انہیں معمولی جرمانے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ دوسرے ملک کے غریبوں کو جیلوں میں بند کر کے تشدد کرنے سے آپ کچھ نہیں جیت پائیں گے۔
اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم دفاع پر اپنے بے تحاشہ خرچوں کو کم کریں، اور اس جانب توجہ کریں جہاں ہم اپنے لوگوں کو بہتر ترقی دلوا سکیں، اور انہیں غربت اور توہین آمیز زندگی کے بجائے باعزت زنگی کا تحفہ دے سکیں۔

0 comments: