Google_plus Pinterest Vimeo RSS

Pakistan is the ISIS's Next Target...



میں نے مورخہ 22 جولائی 2014 کو ڈان اردو کی ویب سائٹ پر جب اپنی تجزیاتی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان میں بھی داعش یعنی دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے روابط پاکستانی جہادی گروپوں کے ساتھ بہت مضبوط اور طویل عرصے سے ہیں اور مقامی جنگجو بھی اب عراق اور شام کا رخ کررہے ہیں، اور اندیشہ بھی ظاہر کیا کہ پاکستان میں داعش کے لیے بھرتی شروع ہوچکی ہے، تو بہت سے لوگوں اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے اسے رد کردیا اور اس خطے میں داعش کی موجودگی مسترد کردی، جب کہ میرے اس اندیشے کی بنیاد اس ''کاروبار'' سے وابسطہ چند اہم لوگوں سے میری گفتگو تھی جس میں اندر کے لوگوں کے مطابق داعش کے لوگ پاکستانی اور افغان طالبان کے علاوہ دیگر جہادی گروپوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح اس خطے کے جہادیوں کو داعش کے پلیٹ فارم پر یکجا کیا جائے اور اس سلسلے میں ان کی نظریں بالخصوص ان گروپوں پر زیادہ ہیں جو کہ طالبان قیادت سے کوئی نہ کوئی اختلاف رکھتے ہیں یا پھر مختلف جہادی تنظیموں کے باغی یا بے لگام گروپ جو اپنی اپنی قیادت سے ناراض ہیں۔
میری اطلاع کے مطابق داعش کے لیے پاکستان میں رابطہ کاری کا کام وہ سابقہ القاعدہ عرب ارکان اور روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ازبک اور چیچن جنگجو کررہے ہیں جو پاکستانی اور افغان طالبان کے ساتھ کئی سالوں تک کام کرتے رہے ہیں اور القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے تنظیمی ڈھانچے میں مناسب رابطہ اور رہنمائی نہ ہونے کے سبب مایوسی کی کیفیت میں تھے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان اختلافات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی آپس کی خون ریزی اور پھر ان گروپوں کی ایک دوسرے کی مخبری کرنے سے بھی اپنے آپ کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے تھے۔ نہ وہ افغانستان میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے اور نہ ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں۔
اسی وجہ سے انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب داعش کے ساتھ ملکر جہاد کا کام کیا جائے کیونکہ وہ القاعدہ کے مستقبل سے بالکل مایوس ہوچکے تھے۔ اسی بنا پر ان لڑاکوں نے عراق اور شام کا رخ کیا جبکہ ان کے رابطے تو آپس میں ابومصعب الزرقاوی کے وقت سے ہی مضبوط چلے آرہے تھے۔ ازبک اور چیچن جہادی دنیا بھر میں اپنی سخت گیری اور بے لچک رویہ کی وجہ سے ایک الگ پہچان رکھتے ہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ان کے اسی رویے کی بنا پر مقامی طالبان اور قبائل کے ساتھ اکثر وبیشتر ان کے اختلافات اور لڑائی چلتی رہتی تھی اور پھر ملا عمر یا القاعدہ کی سینئیر لیڈرشپ کی مداخلت پر ان کو آپس میں بٹھاکر اختلافات ختم کروائے جاتے تھے۔ وہ بھی روز روز کی اس چکچک سے بیزار تھے اس لیے انکو بھی داعش کی صورت میں ایک مظبوط پلیٹ فارم مل گیا۔
اس ساری صورتحال سے القاعدہ، افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان بالکل بےخبر نہیں تھے اور انہیں نظر آرہا تھا کہ دولت اسلامیہ کے لیے اس خطے میں زمین بہت زرخیز ہے اور یہ تنظیم شائد افغان طالبان کے لیے بہت زیادہ خطرے کا باعث تو نہیں بن سکے مگر القاعدہ اور تحریک طالبان کی بقاء کا مسئلہ ضرور بن جائے گی۔
گو کہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دولت اسلامیہ کو ثابت قدم رہنے کامشورہ اور ہرممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کروانے کی کوشش کی اور پیغام دیا کہ مسلمانوں کے دشمن متحد ہوچکے ہیں، آپ بھی متحد رہیں، مشکل وقت میں آپ کے ساتھ ہیں۔
امریکی اخبار ’’بلوم برگ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ نے نامعلوم مقام سے جاری کیے گئے ایک بیان میں عراق اور شام میں سرگرم دولت اسلامیہ اور دوسرے جنگجوؤں سے کہا کہ وہ متحد رہیں ہم اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہیں اور جس طرح ممکن ہوا مدد کریں گے۔ انہوں نے داعش اور دوسرے جنگجوؤں سے کہا کہ وہ صبر کا مظاہرہ کریں اور اس مشکل وقت میں متحد اور ثابت قدم رہیں کیونکہ دشمن ان کے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔
لیکن وہ کسی طرح بھی نہ تو دولت اسلامیہ کو اپنے اس رسمی بیان سے متاثر کر پائے اور نہ ہی اپنا ساتھ چھوڑ کر داعش میں شامل ہونے والوں کو روک پائے۔
عسکریت پسندوں کے ایک اور گروپ جس نے حال ہی میں پاکستانی طالبان سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا کے سربراہ عمر خراسانی نے بھی 10 منٹ کے ویڈیو پیغام میں دولت اسلامیہ، القاعدہ اور نصرہ فرنٹ کو مدد کی پیشکش کی, لیکن تحریک طلبان پاکستان کو سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد اور پانچ دیگر طالبان کمانڈرز نے داعش میں شمولیت کا اعلان کردیا۔


بااثر قبائلی محسود گروپ نے 2013 میں پاکستانی طالبان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ کی امارت ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے دوران طالبان گروپوں کی آپس کی دشمنیوں کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کو شدید نقصان پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ ملا فضل اللہ کے امیر بننے کے بعد سے کئی دھڑوں نے علیحدگی کا بھی اعلان کیا ہے۔
حال ہی میں پنجابی طالبان نے بھی اپنی عسکری کارروائیاں بند کرکے تبلیغ کا کام کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اپنے ایک بیان میں شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ وہ داعش کی جانب سےخلیفہ مقرر کیے جانے والے ابو بکر البغدادی کی بیعت کر رہے ہیں اور اب انہی کے احکامات کو مانیں گے۔ شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ یہ بیعت پوری تحریک طالبان پاکستان یا اس کے امیر فضل اللہ کی جانب سے نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان کی اور ٹی ٹی پی کے پانچ امراء کی جانب سے ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے دیگر پانچ کمانڈرز میں کرم ایجنسی، خیبرایجنسی، اورکزئی ایجنسی، ہنگو اور پشاور کے امیر شامل ہیں۔ بیان کے مطابق ٹی ٹی پی کے امیر فضل اللہ نے خلافت اسلامیہ (داعش ) کی حمایت تو کی ہے لیکن ابھی تک بیعت نہیں کی۔ شام اور عراق کے وسیع حصہ پر قابض تنظیم داعش اب جنوبی ایشیا میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے، جہاں مقامی طالبان پاکستان اور افغان حکومت کے خلاف سرگرم ہیں۔ یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ستمبر میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے سابق طالبان کمانڈر عاصم عمر کو اپنی جنوبی ایشیا برانچ کا سربراہ مقرر کیا ہے۔
داعش اور القاعدہ سے جڑے طالبان کمانڈروں کے درمیان مضبوط اتحاد کے شواہد اتنے واضح نہیں لیکن حال ہی میں داعش کی حمایت میں پشاور میں پمفلٹس بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے زیر انتطام کشمیر میں جلسوں میں بھی داعش کے جھنڈے نظر آئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے عید الضحی کے موقع پر بھی ایک جاری پیغام میں داعش کے مقاصد کی مکمل حمایت ظاہر کی تھی۔
اب اس سلسلے میں ایک نہایت ہی تشویشناک اور اہم خبریہ بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق اب دولت اسلامیہ کراچی میں بھی اپنی سرگرمیاں شروع کرچکی ہے اور اس بابت محکمہ داخلہ سندھ نے اپنی ایک رپورٹ میں آگاہ کیا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان، القاعدہ، لشکرِ جھنگوی اور جنداللہ سمیت دیگر شدت پسندوں تنظیموں کے بعد اب دولت اسلامیہ (داعش) نے بھی کراچی میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں آئی ایس یا داعش کے ناموں سے وال چاکنگ کی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد کی جانب سے یہ وال چاکنگ شہر کے حساس علاقوں میں کی گئیں ہیں، جن میں اورنگی ٹاؤن، بلدیہ، لانڈھی، سہراب گوٹھ، منگھوپیر اور گلشنِ معمار بھی شامل ہے۔اس صورتحال کے بعد محکمہ داخلہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کو تحریری طور پر آگاہ کردیا ہے، جبکہ اس حوالے سے حکمتِ عملی تیار کرنے کی بھی ہدایت کردی گئی ہے۔
جس طرح اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے عراق اور شام میں شیعہ اور کرد برادری کے علاوہ عام سنیوں کو بھی بے دریغ نشانہ بنایا جارہا ہے اور حکومت مخالف تخریبی کارروائیاں کی جارہی ہیں، اس سے پاکستان بھر میں شدید تشویش پائی جارہی ہے کہ اگر داعش نے پاکستان میں بھی اپنی سرگرمیاں شروع کردیں تو پھر کیا ہوگا۔
اس ملک میں پہلے ہی طالبان اور لشکر جھنگوی کے علاوہ درجنوں تنظیمیں ایسی ہیں جو اپنی اپنی پسند اور برانڈ کے اسلام کے نفاذ کے لیے عام اور معصوم لوگوں کا ایک عرصے سے خون بہا رہی ہیں اور ان تنظیموں نے صرف فرقے، مسلک اور مذہب کی بنیاد پر قتل وغارت گری مچا رکھی ہے اور فرقہ ورانہ دہشتگردی عروج پر ہے۔


وہاں پر داعش جیسی تنظیم جس نے انبیاء کے مزارات بھی بموں سے اڑا دیے، اگر اپنی طرز کا اسلام نافذ کرنے کے لیے سرگرم ہو جائے تو باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تقریبآ تمام جہادی تنظیمیں فوراً اس میں شامل ہوجائیں گی اور بالخصوص شیعہ مخالف لشکرجھنگوی، جنداللہ، پنجابی طالبان اور بلوچستان اورایرانی سرحدی پٹی پر سرگرم ایرانی جنداللہ کو تو کھل کر کھیلنے کے لیے ایک بہت بڑی طاقت میسر آجائے گی۔
جس طرح ماضی کے شدت پسند گروہوں کے برعکس، دولتِ اسلامیہ نے خود کو شدت پسند سنی مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم کے طور پر پیش کیا ہے جس کا مقصد مسلم دنیا میں قائم مخصوص فرقوں کی حکومتوں کے خلاف لڑنا ہے۔ تمام اقلیتی گروہوں سے نفرت اور خاص طور پر شیعہ مسلمانوں سے نفرت دولتِ اسلامیہ کی گھُٹی میں شامل ہے اور یہی بات طالبان، لشکرِجھنگوی اور دیگر پاکستانی جہادی تنظیموں میں بہت مشترک پائی جاتی ہے۔
اگر پاکستان میں سرگرم مختلف جہادی اور عسکریت پسند گروپوں کی اس نئی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے جس کے تحت بقول ان کے وہ پاکستان میں دہشتگردی سے تائب ہو کر یا تو صرف افغانستان میں جنگ جاری رکھیں گے یا پھر صرف دین کی نشرواشاعت کا کام کریں گے توصاف نظر آتا ہے کہ یہ صرف ان کی ایک حکمت عملی ہے جس میں ایک طرف تو آپریشن ضربِ عضب سے جان چھڑائی جائے، دوسرا فوج کو یہ اشارے دیے جا رہے ہیں کہ اب ہماری دلچسپی پاکستان میں نہیں بلکہ ہماری نئی منزل عراق و شام ہیں۔
لیکن پاکستانی فوج بھی اس ساری صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس مرتبہ کسی رعایت کے موڈ میں نہیں ہے اور یہی بہترین حکمت عملی بھی ہے۔ اگر خدانخواسطہ داعش جیسی سفاک اور بے رحم تنظیم نے پاکستان میں جگہ بنالی تو پھر پاکستان میں بھی خدشہ ہے کہ وہ سب کچھ ہو جو اس تنظیم کا خاصہ ہے۔ ’اس قسم کے قاتل صرف ایک زبان سمجھتے ہیں اور وہ طاقت کی زبان ہے۔ پاکستانی فوج ایک بین الاقوامی وسیع اتحاد کے ساتھ مل کر موت اور وحشت کے اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماضی میں جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے القاعدہ کی پاکستان میں موجودگی کا انکشاف کیا تھا تو اس وقت ہم اس سے انکاری تھے، لیکن کیا ہوا؟ مختلف وقتوں میں القاعدہ کا ایک سے ایک مضبوط نیٹ ورک پکڑا گیا اور خالد شیخ محمد سے لیکر اُسامہ بن لادن تک سب کی پناہ گاہیں پاکستان سے ہی نکلیں اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان کو اس کی ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔
اب ’’داعش‘‘ کے آنے سے بیرونی قوتوں کو پاکستان کی جانب ایک مرتبہ پھر پر انگلیاں اٹھانے کا موقعہ مل جائے گا۔ یوں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ایک نئی جنگ میں جھونک دیا جائے گا اور شاید ہم اس وقت کسی بھی نئی خانہ جنگی کے متحمل بھی نہیں۔ پاکستان بھر میں ایسےعسکریت پسند گروہ کثرت سے موجود ہیں جو اس ملک کی اپنے خودساختہ نظریے اور سوچ کی بنیاد پر ازسرنو تعمیر کرنے کی خواہش دل میں رکھتے ہیں اورحاضر وقت جمہوری نظام کو مذہب سے متصادم قرار دیتے ہیں۔
ہر ایسے گروہ کی قیادت کے پاس ایک نئے پاکستان کا نقشہ اور اپنے برانڈ کے نظریے کی تکمیل کی خاطر دل میں بہت کچھ کر گزرنے کی تمنا ہے۔ فرقہ وارانہ شدت پسندی سے جڑے بین الاقوامی معاملات اور عراق و شام کی صورتحال ہر ذی شعور پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ عراق اور شام میں فرقہ واریت اور سیاسی عمل کی ناپختگی اور حکومت کی کمزوری نے خانہ جنگی کو ہوا دی اور فرقہ پرست گروہ داعش کو موقع فراہم کیا کہ یہ عراق اور شام کے علاقوں میں قبضہ کر کے اپنے خود ساختہ نظریہ پر سخت گیر سنی اسلامی خلافت کا قیام کرے۔
جب معاملات خرابی کی طرف مائل ہوں تو مذہبی و فرقہ پرست عناصر افواج میں بھی شکست و ریخت کا سبب بنتے ہیں۔ عراقی اور شامی افواج بھی اسی ہیجان کا شکار ہوئیں جہاں فرقہ پرستی عراقی و شامی قومیت پر حاوی ہوئی اور کئی محاذوں پر یہ افواج چند سو لڑاکوں کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر رہیں یا محاذ سے پیچھے ہٹ گئیں۔ اس معاملے پر بھی پاکستان کے حالات قدرے مختلف تو ضرور ہیں لیکن کچھ حد تک تشویشناک بھی ہیں کیونکہ پاکستانی فوج پیشہ وارانہ لحاظ سے دنیا بھر میں مانی بھی جاتی ہے اور اس کی ساکھ بھی متاثرکن ہے لیکن ماضی قریب و بعید میں اہم حساس تنصیبات اور سیکیورٹی اداروں پر کی گئی متعدد دہشت گرد کاروائیوں میں اندرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے اشارے بھی ملتے رہے ہیں جس کی مثال حالیہ ڈاکیارڈ حملہ میں نیوی کے حاضر سروس اور سابقہ اہلکاروں کا ملوث ہونا اور اسی طرح چند سال پہلے انگوراڈا وزیرستان آپریشن میں ایس ایس جی کے کمانڈر جنرل فیصل علوی کی ہلاکت میں فوج کے سابقہ میجر ہارون عاشق جو کہ القاعدہ کے پاکستانی کمانڈر الیاس کشمیری کے گروپ میں شامل تھے کی گرفتاری ہیں۔
دولت اسلامیہ کو یقینًا القاعدہ کی ہی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں بڑا خطرہ سمجھنا چاہیے اور اسے پسپا کرنے کے لیے ایک زبردست پیشگی حکمت عملی بھی بنانی چاہیے۔ بظاہر حالات ابھی اتنے سنگین نظر نہیں آتے لیکن جس طرح گزشتہ دنوں پاکستانی طالبان اور دیگر جہادی گروپوں نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا ہے وہ یقیناً ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور ہمیں حالات کو قابو کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

0 comments: