Google_plus Pinterest Vimeo RSS

Pakistanis Consumed 64 Billion Cigarettes & Spent 250 Billion on Smoking in a Year...(Statistical Bulletin Report)







اسلام آباد: ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے مالی سال 2014 میں 64 ارب سگریٹ پھونک ڈالے۔
سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے گروپوں نے حکومت کی جانب سے تمباکونوشی کی روک تھام میں ناکامی پر مایوسی ظاہر کی ہے۔
پاکستان سٹیٹ بینک کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی اس سٹیٹسٹیکل بلیٹن رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے ایک سال میں تمباکو نوشی پر 250 ارب روپے خرچ کیے۔
دی نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن ( ٹی این) کے ایگزیکٹیو کوآرڈینیٹر ندیم اقبال نے رپورٹ کو حکام کیلئے چشم کشا قرار دیتے ہوئےحکومت پر زور دیا کہ وہ تمباکو نوشی پر قابو پانے کے حوالے سے قوانین پر خلوص کے ساتھ عمل کرائے۔
ندیم کے مطابق: رپورٹ تمباکو کے مضر اثرات کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی نااہلی کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔
'صورتحال بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ رپورٹ میں درج سیلز ریکارڈ صرف سگریٹ نوشی سے متعلق ہیں اور ابھی اس میں گٹکا ، نسوار یا پان وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں'۔
ندیم کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت تمباکو سے پیدا ہونے والے سالانہ ریوینو میں دلچسپی رکھتی ہے اور اسے کوئی فکر نہیں کہ تمباکو نوشی صحت سے متعلق اخراجات میں بڑے اضافے کا سبب ہے۔
'سٹیٹ بینک کی اس رپورٹ کے بعد حکومت کو واضح انداز میں بتانا چاہیے کہ اسے تمباکو کی مد میں کتنی آمدنی ہو رہی ہے اور عوام تمباکو نوشی پر کتنا خرچ کرتے ہیں'۔
ندیم نے ٹی بی اور پھیپڑوں کے امراض کے خلاف انٹرنیشنل یونین کی ایک رپورٹ میں درج اعداد و شما رکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سگریٹ نوشی کا رجحان بڑھا ہے اور 1997 اور 2008 کے دوران اس میں 55 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
صرف 2008 میں 76 ارب سگریٹ پھونک دیے گئے اور اسی عرصہ میں فی کس سگریٹ نوشی میں تقریباً 23 فیصد اضافہ ہوا۔
پاکستان ڈیموگرافک سروے ہیلتھ سروے کے مطابق، 46 فیصد مرد جبکہ 5.7 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔
پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد اموات کا سبب سگریٹ نوشی بتایا جاتا ہے اور ان میں زیادہ تر اموات کی وجہ پھیپڑوں یا دوسرے کینسر ، دل کے امراض اور سانس کی بیماریاں ہیں۔
ندیم اقبال کا کہنا ہے کہ وزیر برائے قومی صحت و سروسز نے تمباکو کے استعمال کی روک تھام کے حوالے سے عزم ظاہر کیا ہے لیکن حقیقت میں اس پر کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا۔

0 comments: