پسماندگی بہت ضروری ہے
بہت سے ملکوں میں کئی علاقے ترقی کا شوروم کہلاتے ہیں اور کئی علاقے پسماندگی کا اشتہار بنا کے رکھے جاتے ہیں۔جیسے نیویارک کا دل مین ہیٹن اور پھر اسی نیویارک کا زخم برونکس اور کم و بیش اسی انداز کے باقی امریکی شہر۔ جیسے لندن کا حسین محلہ مے فئیر اور پھر اسی لندن کا مدقوق اندرونِ ایسٹ اینڈ ۔ جیسے اکیسویں صدی کا چین ساحلی اور جنوبی و مشرقی شہروں کے شوکیس میں بند اور پھر انیسویں صدی کے تصویری فریم میں ٹنگے ہوئے مغربی اور وسطی صوبے ۔جیسے بھارت کا چمکیلا گجرات اور پھر اسی بھارت کا خزاں رسیدہ بہار وغیرہ۔
پاکستان میں بھی آپ کو ترقی کے شو روم اور پسماندگی کے نگار خانے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ۔جیسے اسلام آباد کا سب سے بڑا شو روم جو پاکستان سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر ہے۔ دوسرا بڑا شوکیس لاہور ہے جس کے آس پاس پنجاب بھی پڑا ہوا ہے اور اسی پنجاب کے ایک کونے پر راولپنڈی جیسا منہ چڑا لاڈلا ہے اور دوسرے کھدرے پر راجن پور اور ہم نواؤں سمیت دور پرے کے غریب رشتہ دار بھی حالتِ برداشت میں ہیں۔
رہا خیبر پختون خوا اور اس کے قبائلی تو یہ لوگ ہی اتنے عجیب ہیں کہ کوئی ان کے لیے کرے بھی تو کیا کرے۔نہ ہاتھ پھیلاتے ہیں ، نہ مسلسل غل مچاتے ہیں، حتی کہ منھ سے سی کی آواز نکالنے تک کو ناگوار کام سمجھتے ہیں۔بس پشتو ، ہندکو ، چترالی وغیرہ میں ہی آپس میں کچھ نہ کچھ کہتے سنتے رہتے ہیں جو میرے جیسوں کے پلے نہیں پڑتی تو ترقی کی ریوڑیاں بانٹنے والے نابیناؤں کے کیا پلے پڑے گی؟
سندھ میں کہنے کو تو کراچی ترقی کا اور اندرونِ سندھ تنزلی کا استعارہ بتایا جاتا ہے لیکن اسی کراچی عرف منی پاکستان میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پسماندہ پاکستان بھی پائے جاتے ہیں اور اندرونِ سندھ کی پسماندگی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے درمیان بہت سے ایسے الف لیلائی اوطاق بھی پائے جاتے ہیں کہ ملکہِ برطانیہ بھی بکنگھم پیلس ان اوطاقوں سے بدلنے کو تیار ہوجائیں۔اور ذرا تصور کریں کہ اسی پسماندہ سندھ میں ایسے بھی علاقے ہیں جن کے موازنے میں صومالیہ بھی فرانس لگے ہے۔ یقین نہ آئے تو ضلع دادو ، عمرکوٹ اور تھر پارکر وغیرہ کے اندرون دیکھ لیجیے جہاں پینے کا صاف پانی ایک مقامی دیہاتی آج بھی ایسی نظروں سے دیکھتا ہے جیسے کوئی کھاتا پیتا مڈل کلاسیا رائل سلوٹ سکاچ وہسکی کی بوتل تاڑے ہے۔
پہلے پہل مجھے بھی یقین نہ آتا تھا ۔پر اس دن آ گیا جب میں تھر کے ایک اندرونی ریگستانی قصبے چیلہار سے عمر کوٹ جانے والی ویگن میں دیگر انسان نما بکریوں جیسا ٹھونسا گیا۔ایک چودہ پندرہ برس کا تھری بچہ میری وضع قطع دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ جناور دساور کا ہے۔پوچھنے لگا کہاں سے آئے ہو ؟ میں نے کہا کراچی سے ۔کراچی کیسا شہر ہے۔میں نے کہا بہت بڑا شہر ہے ، لاکھوں گاڑیاں ہیں، بے شمار لوگ ہیں ، بہت پیسہ ہے۔اس نے پوچھا پھر تو وہاں پینے لائق پانی بھی ملتا ہوگا ؟ میں نے جواب دیے بغیر منہ کھڑکی کی طرف پھیر لیا کیونکہ آنسو بہرحال ذاتی ملکیت ہی ہوتے ہیں ۔
ویسے تھر جیسے علاقوں میں بنیادی سہولتیں اگر پوری ہوجائیں تو پھر ترقیاتی منصوبوں کا کیا بنےگا ؟ این جی اوز کے روز تراشے خواب کس قبرستان میں دفنائے جائیں گے۔ پانچ کلو گندم کا تھیلہ جھریوں بھرے ہاتھ کو پکڑاتے ہوئے یا دھڑ سے ننگے کسی معصوم کو گود میں لیے ہوئے کسی ہز ہائی نیس کی جو انسانی تصویر صفحہِ اول پر شائع ہوتی ہے وہ کون کھینچے گا؟
البتہ بلوچستان کے اندرون کا میں بالکل ذکر نہ کروں گا۔لکھنے کے لیے آخر کوئی مسئلہ ہونا چاہیے۔بلوچستان تو اتنا خالی ہے کہ تاحدِ نگاہ مسئلہ تک نظر نہیں آتا۔ویسے بھی ان علاقوں کے بارے میں کیا لکھنا جن کے موازنے میں تھرپارکر بھی ہانگ کانگ محسوس ہو۔کم ازکم تھرپارکر تک کوئی ایسی سڑک تو جاتی ہے جس پر کسی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی چل کے شام تک کراچی لوٹ سکے ۔دشت ، آواران ، خاران ، چاغی وغیرہ وغیرہ کے اندرون تو ایسے لق و دق اور سناٹے دار ہیں کہ ترقی ان بیابانی راستوں میں ہی تڑپ تڑپ کے مرجاتی ہے۔
محسوس کرو گے تو گذر جاؤ گے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے ( جاوید صبا )
0 comments: