Google_plus Pinterest Vimeo RSS

کیا پاک روس تعلقات آگے بڑھ پائیں گے؟

کیا پاک روس تعلقات آگے بڑھ پائیں گے؟


روسی وزیرِ دفاع نے روسی وزیردفاع نے پاکستانی ہم منصب خواجہ آصف اور وزیراعظم سے الگ الگ ملاقاتیں کیں

پاکستان اور روس کے درمیان کئی دہائیوں بعد فوجی تعاون کے معاہدے کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
جعمرات کو اسلام آباد میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے دہشت گردی کےخاتمے اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے، سیاسی و فوجی مسائل پر معلومات کے تبادلے اور بین الاقوامی سلامتی کو بہتر بنانے کے علاوہ کئی فوجی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اسے ایک اہم سنگ میل قرار دیا اور کہا کہ دونوں ملک باہمی تعلقات ٹھوس شکل میں لانے اور دونوں ملکوں کی فوجوں ک ے درمیان تعلقات مزید مضبوط بنانے کے لیے کام کریں گے۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ معاہدے پر دستخط کے لیے روس کے وزیر دفاع سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پہلی بار پاکستان آئے تھے۔
اگرچہ فوجی تعاون کے اس معاہدے میں پاکستان کو روسی ساختہ فوجی ہیلی کاپٹروں ایم آئی 35 کی فراہمی کا سودا شامل نہیں جس کا پاکستان میں روس کے سفیر الیکزے دیدوف نے حال ہی میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ ایک انٹرویو میں عندیہ دیا تھا تاہم تجزیہ کار دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ضمن میں اس معاہدے کو خاصا اہم قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ایک نئی کوشش تو ضرور ہے مگر مستقبل میں اس پر عملدرآمد سے ہی نتائج کا پتہ چل سکے گا۔
’پاکستان کی خارجہ پالیسی میں روس کے ساتھ اتنا وسیع البنیاد اور وسیع المعیاد معاہدہ کبھی نہیں ہوا۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی میں آپشنز کو وسعت دی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ان راستوں پر چل کر کیا واقعی اپنی خارجہ پالیسی میں یہ تبدیلی لا سکتا ہے کہ اس کے روس کے ساتھ نارمل اور دوستانہ تعلقات ہوں۔‘


روسی وزیرِ دفاع ایک ایسے وقت پاکستان کے دورے پر پہنچے جب جنرل کیانی امریکہ کے دورے تھے
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کا جھکاؤ امریکہ کی ہی طرف رہا۔ سیٹو، سینٹو کے معاہدے ہوں یا افغان سرزمین پر سوویت یونین کے خلاف جنگ۔ پاکستان، عالمی صف بندی میں ہمیشہ سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے اور اپنی معیشت اور دفاع کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون پر ہی انحصار کرتا رہا ہے جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ مغرب کا اہم اتحادی بھی ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ روس کے ساتھ فوجی تعاون کا یہ معاہدہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر کس طرح سے اثر انداز ہو سکتا ہے؟
تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے درمیان انسداد دہشت گردی اور اقتصادی میدان میں تعاون سے امریکہ کو تشویش نہیں ہوگی اور اس کی وجہ روس اور بھارت کی پرانی دوستی ہے۔
’ہم سب جانتے ہیں کہ اس علاقے میں روس کے لیے بنیادی حیثیت بھارت کی ہے اور بھارت سے اس کی تعلقات کی بنیادی حیثیت قائم رہے گی تو امریکہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ امریکہ کے لیے پاکستان کے روس سے تعلقات صرف اُسی صورت میں پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں جب پاکستان کے روس کے ساتھ دفاعی تعلقات میں اتنی ہی وسعت آنی شروع ہو جائے جتنی کہ امریکہ کے ساتھ ہے، لیکن اس کے فی الحال ہمیں کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کی فوجوں کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال کے پیش نظر اپنی خارجہ پالیسی کو پہلے سے زیادہ لچکدار بنا رہا ہے اور افغانستان کی نئی حکومت سے بہتر تعلقات کا عزم بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

0 comments: