’نیٹو افواج کے انخلا سے پراکسی وار شروع ہو سکتی ہے‘
پاکستان کے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا پاکستان اور بھارت کو افغانستان میں پراکسی وار کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سابق صدر نے کہا کہ ’پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ افغانستان میں امن قائم کیا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا ’بھارت کا افغانستان میں اثر و رسوخ پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔‘
واضح رہے کہ رواں برس افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا مکمل ہو جائے گا اور محض امریکی تربیت کار اور فوجی مشیر ہی افغانستان میں رہ جائیں گے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی کراچی کی رہائش گاہ پر اے ایف پی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں افغانستان میں قیامِ امن کے کے لیے پاکستان کی حمایت بہت ضروری ہے۔
’یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک مزید خطرہ ہے کیوں کہ بھارت پاکستان مخالف افغانستان بنانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں ہندوستان کا عمل دخل پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔‘
انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا افغانستان کے کچھ نسلی عناصر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، تو پاکستان بھی وہاں اپنے نسلی عناصر استعمال کرے گا اور وہ یقیناً پشتون ہوں گے۔ ہم افغانستان میں پراکسی وار کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس سے گریز کرنا چاہیے۔‘
پرویز مشرف نے بھارت پر افغانستان میں قائم کیمپوں کے ذریعے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں علیحدگی پسند قوم پرستوں کی حمایت کا بھی الزام لگایا۔
پرویز مشرف نے حامد کرزئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا افغانستان نے اپنے حکام کو پاکستان کے بجائے ہندوستان میں تربیت لینے کے لیے بھیجا، یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں حکمت عملی کی مشکلات کو بڑھاتی ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی کی حالیہ ملاقات میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ان کے تین دن کے دورے میں 13 سال کے اختلافات ختم ہو گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں اور جلسوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے ’پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے احتجاجی دھرنوں نے ہر کسی کو ہلا دیا ہے۔ لوگ اب تبدیلی کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ میرے ذہن میں اس حوالے سے کوئی شکوک و شبہات نہیں ہیں اور نہ ہی کسی کے ذہن میں ہونے چاہییں کہ پاکستان کے عوام نہایت شدت سے تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔‘
0 comments: