Google_plus Pinterest Vimeo RSS

پشاور سانحہ: 'میں نے موت کو قریب سے دیکھا'


پشاور : پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں فائرنگ سے زخمی ہوجانے والے ایک طالبعلم نے بتایا ہے کہ کس طرح اس کی دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگیں اور پھر کس طرح اس نے طالبعلموں کو مارنے والے عسکریت پسندوں سے بچنے کے لیے مرنے کا ڈرامہ کیا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرعلاج سلمان (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی اسکول کے آڈیٹوریم میں کیرئیر گائیڈنس سیشن میں شریک تھے جب سیکیورٹی اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوس چار افراد وہاں گھس آئے۔
سلمان نے بتایا " کسی نے چیخ کر ہمیں ڈیسک کے نیچے چھپ جانے کا کہا جس کے بعد مسلح افراد نے فائرنگ کھول دی"۔
اس نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک حملہ آور نے چیخ کر کہا کہ متعدد بچے بینچوں کے نیچے چھپے ہوئے ہیں وہاں جاﺅں اور انہیں مار دو۔
سلمان کا کہنا تھا کہ مجھے اس وقت تک دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگ چکی تھیں اور میں نے بڑے سیاہ جوتوں کو اپنی طرف آتے دیکھا جو چھپے ہوئے طالبعلموں کو ڈھونڈ کر مار رہا تھا۔
اس نے مزید بتایا کہ زخم کی وجہ سے اسے شدید تکلیف ہورہی تھی مگر اس نے بچنے کے لیے مرنے کی اداکاری کا فیصلہ کیا اور اپنی ٹائی کھول کر منہ میں ڈال لی تاکہ تکلیف سے چیخ نہ سکے، دوسری جانب مسلح شخص طالبعلموں کو ڈھونڈ کر ان پر گولیاں برسا رہا تھا تاہم سلمان نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور خود پر فائرنگ کا انتظار کرنے لگا۔
سلمان کے مطابق " میرا جسم کانپ رہا تھا، میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور میں کبھی ان سیاہ جوتوں کو نہیں بھول سکتا جو میری جانب بڑھ رہے تھے اور مجھے لگ رہا تھا کہ موت میری جانب آرہی ہے"۔
ہسپتال کے خون سے خراب ہوجانے والے بستر پر لیٹے سلمان نے بتایا " وہ مسلح افراد کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے جس کے بعد میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو زخموں کی وجہ سے پھر گیا، اس کے بعد میں اگلے کمرے میں رینگتا ہوا پہچنا جہاں میں نے خاتون آفس اسسٹنٹ کی جلتی ہوئی لاش کو دیکھا اور جس کرسی پر وہ پڑی تھی وہاں سے خون رس رہا تھا"۔
ابھی یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ اس خاتون کی لاش نے آگ کیسے پکڑی، تاہم سلمان نے بتایا کہ اسے اس فوجی کی لاش بھی نظر آئی جو اسکول میں کام کرتا تھا جس کے بعد وہ رینگتا ہوا ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا جس کے بعد اسے ہوش نہیں رہا۔
اس نے مزید بتایا "جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا تھا"۔

0 comments: