Google_plus Pinterest Vimeo RSS

’اس خدا پر یقین نہ کرو جسے تم نے بنایا‘

’اس خدا پر یقین نہ کرو جسے تم نے بنایا‘

عامر خان نے اس فلم میں خلائی مخلوق کا کردار ادا کیا گیا جو زمین پر آ جاتا ہے اور انسانوں کے لالچ کا شکار ہوتا ہے
بالی وڈ اپنے رقص، ڈرامائی مناظر اور گیتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے۔ لیکن بھارت کی یہی مقبول فلمی صنعت کئی ایسی فلمیں بھی بناتی ہے جن سے سماجی مباحثے شروع ہو جاتے ہیں جو ملک کے لیے بہت معنی رکھتے ہیں۔
عامر خان کی نئی فلم ’پی کے‘ بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔
یہ فلم ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگوں کے شعور پر مذہب بہت اندر تک رچا ہوا ہے توہم پرستی پر سوال اٹھاتی ہے۔
عامر خان نے اس فلم میں خلائی مخلوق کا کردار ادا کیا گیا جو زمین پر آ جاتا ہے اور انسانوں کے لالچ کا شکار ہوتا ہے۔
اس کا ’ریموٹ کنٹرول‘ جس کی مدد سے وہ واپس اپنی دنیا میں جا سکے چوری ہو جاتا ہے۔
جس لمحے وہ دنیا دریافت کرنے نکلتا ہے اس کا سامنا اچھے اور برے سبھی لوگوں سے ہوتا ہے اور وہ مختلف مقامات کی سیر کرتا ہے اور زبانیں سیکھتا ہے۔
اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ریموٹ کنٹرول حاصل کرنے میں صرف خدا ہی اس کی مدد کر سکتا ہے۔
وہ پرانے مندروں، مسجدوں اور گرجا گھروں میں جاتا ہے۔ وہ پادریوں اور مذہبی علما کی ہدایات پر عمل کرتا ہے تاکہ ہر عقیدے کے خدا کو منا سکے۔
لیکن جلد ہی عامر خان کے کردار کو پتا چلتا ہے کہ کچھ خود ساختہ گورو (استاد) لوگوں کی توہم پرستی کا فائدہ اٹھا کر ان سے دھوکا کرتے ہیں۔
یہ فلم انتہائی سادگی سے توہم پرستی پر سوالات اٹھاتی ہے

سوچنے پر مجبور کرنے والا ڈراما

’پی کے‘بھارت میں مذہبی عقائد اور عوامل پر تنقید کرنے والی پہلی متنازع فلم نہیں ہے لیکن پھر اس فلم پر اتنا سخت ردِعمل کیوں آ رہا ہے؟
جواب فلم کی سادہ کہانی میں ہی ہے۔ یہ فلم مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی لیکن انتہائی سادگی سے توہم پرستی پر سوالات اٹھاتی ہے۔
فلم کے ایک سین میں ایک پادری ایک شخص کو ہمالیہ کا ایک مشکل سفر پر جانے کو کہتا ہے تاکہ اس کے خاندان کا ایک فرد جو بیمار ہے صحت مند ہو جائے۔
اس لمحے ’پی کے‘ گفتگو میں شامل ہوتا ہے اور پوچھتا ہے ’کیا یہ سچ ہے کہ خدا تمام انسانوں کو اپنے بیٹے اور بیٹیاں سمجھتا ہے؟‘ پادری ہاں میں جواب دیتا ہے۔
پی کے ایک اور سوال پوچھتا ہے ’کون سا باپ ہوگا کے ایک پہلے سے پریشان بیٹے کو ایک اور کٹھن سفر پر روانہ کرے گا؟‘
ایسے ہی سادہ لیکن اہم سوالات نے اس فلم کو سوچنے پر مجبور کرنے والا ڈراما بنایا ہے۔
میں نے اس وقت تھیٹر میں کئی آنکھوں کو نم دیکھا جب ’پی کے‘ خدا کو وہ تمام کوششیں یاد کروا رہا تھا جو اس نے ریموٹ کنٹرول پانے کے لیے کیں۔
’پی کے‘ کو مدد کرنے والی خاتون صحافی سے محبت ہو جاتی ہے
ان مناظر میں پی کے کو مقدس دریاؤں میں نہاتے، مندروں کی سیڑھیاں چڑھتے، اور خود سوگ میں ماتم کرتے دکھایا گیا۔
اسے بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا مشوروں کا فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نام نہاد مذہبی رہنما مذہب کو تجارت اور منافعے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
باقی کی تمام فلم میں ’پی کے‘ اور اس شخص میں بحث پر مشتمل ہے جس کے قبضے میں وہ ریموٹ ہے۔
فلم کے اختتام پر ’پی کے‘ ثابت کرتا ہے کہ گورو غلط تھا۔ ’پی کے‘ کو مدد کرنے والی خاتون صحافی سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ واپس اپنے سیارے پر لوٹ جاتا ہے۔
اس فلم کو ملے جلے تاثرات ملے ہیں لیکن بیشتر لوگوں نے انتہائی حساس موضوع پر فلم بنانے کے لیے عامر خان اور ہدایتکار راج کمار ہیرانی کی ہمت کی تعریف کی۔
فلم تجزیہ کار نمرتا جوشی کا کہنا ہے کہ ’عامر خان سپر سٹار ہیں اسی لیے فلم کو لاکھوں نے پسند کیا۔ اس کے لوگوں کو سوچنے پر مجور کیا۔ مذہب پر بالی وڈ اور کئی مقامی زبانوں کی فلموں میں بحث کی گئی لیکن عامر خان کی اس فلم میں موجودگی نے اس فلم کو منفرد کر دیا۔‘
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس فلم کی ریلیز کا وقت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ان حالات میں ریلیز ہوئی جب پارلیمنٹ میں مذہب پر بحث جاری ہے، نامی گرامی گورو گرفتار کیے گئے ہیں اور ان پر ریپ اور قتل کے الزامات ہیں۔
یہ اندازہ لگانا تو کافی مشکل ہے کہ کتنے لوگ فلم کے خیال سے متفق ہیں لیکن نمرتا جوشی کا کہنا ہے کہ بہت لوگ فلم دیکھ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ مذہبی عقائد سمیت حساس موضوعات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن سبھی لوگ متفق نہیں ہیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ فلم میں ہندومت اور دیگر مذاہب کو بدنام کرنے کے لیے ہے۔ فلم کے بعد ’بائیکاٹ پی کے‘ کا ہیش ٹیگ #boycottPK بھی ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔
عامر خان نے حال ہی میں اپنی فلم کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ یہ فلم کسی مذہبب کے خلاف نہیں ہے۔
میں فلم دیکھ کر نکلا تو کئی لوگ فلم کے یہ لائن دہرانتے ملے کہ ’ اُس خدا پر یقین کرو جس نے تمہیں بنایا ہے لیکن اس پر نہیں جسے تم نے بنایا ہے۔‘
لیکن کئی لوگ اسی بات پر ناراض بھی تھے۔
بیشتر لوگوں نے انتہائی حساس موضوع پر فلم بنانے کے لیے عامر خان اور ہدایتکار راج کمار ہیرانی کی ہمت کی تعریف کی

0 comments: