Google_plus Pinterest Vimeo RSS

’پی آئی اے کے پائلٹ فیصل یونس کی ڈگریاں جعلی ہیں‘

’پی آئی اے کے پائلٹ فیصل یونس کی ڈگریاں جعلی ہیں‘

پاکستان کے ایوانِ زریں یعنی قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستا ن کی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس کے بڑے بھائی کی ایف اے اور بی اے کی ڈگری جعلی ہے۔
وقار یونس کے بڑے بھائی فیصل یونس پاکستان کی قومی ائرلائن پی آئی اے میں پائلٹ ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی سربراہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ فیصل یونس نے 2003 میں پی آئی اے میں شمولیت اختیار کی تھی اور اُس وقت اُن کے پاس کمرشل پائلٹ کا لائسنس بھی تھا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ جب حکام کو ان کی جعلی ڈگریوں سے متعلق معلومات ملیں تو اُنھوں نے اس بارے میں ایک تحققیاتی کمیٹی بھی قائم کی جنہوں نے جعلی ڈگریوں سے متعلق تحقیقات کیں۔
سول ایوی ایشن کے حکام کا کہنا تھا کہ اس تحقیقاتی ٹیم نے جعلی ڈگریاں پیش کرنے پر فیصل یونس کو بطور پائلٹ ڈسکوالیفائی نہیں کیا بلکہ اُن کی سنیارٹی میں تین سال کی کمی کردی۔
سول ایوی ایشن ڈویژن کے سیکرٹری محمد علی گردیزی نے کہا کہ فیصل یونس کا لائسنس جعلی نہیں ہے۔
ویب سائٹ ہسٹری آف پی آئی اے پر 8 ستمبر 2008 کو لگائی گئی اس تصویر میں فیصل یونس کو بوئنگ 737 طیارے کے کاک پِٹ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر بشکریہ ہسٹری آف پی آئی اے
کمیٹی کے ارکان نے سیکرٹری سول ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ فیصل یونس ان دنوں کیا کر رہے ہیں جس پر حکام کا کہنا تھا کہ وہ قومی ایئرلائن میں ایئربس طیارے کے پائلٹ کی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔
سول ایوی ایشن حکام کا کہنا تھا کہ مذکورہ پائلٹ کی تربیت پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں لہذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے نرم رویہ اختیار کیا جائے تاہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جعلی ڈگریاں رکھنے پرارکانِ پارلیمنٹ کو معاف نہیں کیا گیا تو عام آدمی کی طرف سے کیے جانے والے ایسے جرم کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
2001 کے بیج کی یہ تصویر جس میں پی آئی نے ان کیڈیٹس کو ونگز دیے جن میں بائیں سے چھٹے نمبر پر فیصل یونس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر بشکریہ ہسٹری آف پی آئی اے
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے فیصل یونس کا تعلیمی اور سروس ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔
اس حوالے سے فیصل یونس کا موقف جاننے کے لیے پی آئی اے سے رابطہ کیا گیا تاہم اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔

0 comments: