Google_plus Pinterest Vimeo RSS

ماؤنٹ ایورسٹ پر انسانی فضلے کا پہاڑ

ماؤنٹ ایورسٹ پر انسانی فضلے کا پہاڑ

قوانین کے تحت ہر کوہ پیما کو بیس کمپ واپسی پر 8 کلو کوڑا واپس لانا ہوتا ہے
نیپال کی کوہ پیمائی ایسوسی ایشن کے سربراہ اینگ ٹشرنگ کا کہنا ہے کہ کوہ پیما ماؤنٹ ایورسٹ پر بڑی تعداد میں انسانی فضلہ چھوڑے کر جا رہے ہیں۔
اینگ ٹشرنگ چاہتے ہیں کہ حکومت سیاحوں کو اس بات پر مائل کرے کہ وہ فضلے کو مناسب طریقے سے تلف کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کئی سالوں سے کیمپوں کے اردگرد فضلہ جمع ہو رہا ہے، کوہ پیما برف میں گڑے کھود کر انھیں بیت الخلا کےطور پر استعمال کرتے ہیں اور فضلے کو وہیں دبا دیا جاتا ہے۔‘
خیال رہے کہ ہر سال مارچ اور مئی کے درمیان 700 سے ذیادہ کوہ پیما اور گائیڈز ان کیمپوں میں وقت گزاتے ہیں۔
2008 سے اس علاقے میں صفائی مہم پر کام کرنے والے سٹیون شیرپا کہتے ہیں کہ ’اس مسئلے کا حل ضروری ہے یہ صحت کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘
ان کے مطابق کچھ کوہ پیما اونچے کیمپوں پر سفری ٹوائلٹ بیگ استعمال کرتے ہیں۔ بیس کیمپوں میں بھی بیت الخلا کے لیے ٹینٹ ہوتے ہیں جہاں فضلہ ڈرموں میں جمع کیا جاتا ہے ان کو نیچے لا کر مناسب طریقے سے تلف کیا جا سکتا ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ کو سب سے پہلے 1953 میں نیوزی لینڈ کے کوہ پیما ایڈمنڈ ہلیری اور ان کے مقامی گائیڈ تنزنگ نورگے نے سر کیا تھا
کچھ اگلے کیمپوں میں ٹینٹ اور دوسری سہولتیں تو موجود ہیں مگر بیت الخلا نہیں ہیں۔
دوسری جانب نیپال کی حکومت کے کوہ پیمائی کے محکمے کی سربراہ پُشپا راج کتوا کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ابھی کوئی مستقل حل تو نہیں نکالا جا سکا مگر حکام صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ کوہ پیماؤں کی جانب سے بیس کیمپ پر لائے جانے والے کوڑے کا بھی جائزہ لیں گے۔
قوانین کے تحت ہر کوہ پیما کو بیس کیمپ واپسی پر 8 کلو کوڑا واپس لانا ہوتا ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ ہر کوہ پیما تقریباً اتنا ہی کوڑا راستے میں پھینکتا ہے۔
کوہ پیماؤں کی ٹیمیں 4 ہزار ڈالر ضمانت کے طور پر رکھواتی ہیں اور اگر وہ قوانین کی پابندی نہ کریں تو یہ رقم ضبط کر لی جاتی ہے۔
پچھلے سال 16 مقامی گائیڈز کی ہلاکت کے بعد کوہ پیمائی کا سیزن منسوخ کر دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کو سب سے پہلے 1953 میں نیوزی لینڈ کے کوہ پیما ایڈمنڈ ہلیری اور ان کے مقامی گائیڈ تنزنگ نورگے نے سر کیا تھا اور اس کو سر کرنے کی کوشش میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

0 comments: