Google_plus Pinterest Vimeo RSS

آسٹریلیا کے خلاف جیت ممکن!


کیا اب ایسا نہیں لگنے لگا کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی پرفارمنس ایک اسکرپٹ کے تحت چل رہی ہے؟
ایک ایسی ٹیم جو ہوم گراؤنڈ پر اور باہر ون ڈے جیتنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی، اب میچ پر میچ جیت رہی ہے۔ ملک میں موجود سکیورٹی مسائل کے علاوہ ٹیم کو کئی اسکینڈلز کا بھی سامنا رہا جس کی وجہ سے محمد آصف، محمد عامر، سعید اجمل، محمد حفیظ، عمر گل، اور جنید خان جیسے کھلاڑی، جن پر پاکستان نے بے تحاشہ وسائل لگائے تھے، میدان سے باہر رہے۔
اور ان کے متبادل کے طور پر وہاب ریاض کو رکھا گیا، جن کی اچھی کارکردگی اتنی نایاب تھی کہ جب میں نے کہا کہ وہ میچ جتوانے والے آل راؤنڈر ثابت ہوسکتے ہیں، تو لوگ ہنسنے لگے۔
اس کے علاوہ سہیل خان، یاسر شاہ، راحت علی، احسان عادل، سرفراز احمد، اور صہیب مقصود کو بھی اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ یہ تمام کھلاڑی ایسے تھے جن کے لیے یہ ورلڈ کپ ان کے کریئر کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ تھا۔
پھر احمد شہزاد، عمر اکمل، اور محمد عرفان کو بھی ابھی خود کو ثابت کرنا تھا، جبکہ ٹیم کے سب سے بہترین کھلاڑی ٹیم کے کپتان تھے جو کہ اکثر اکیلے ہی کشتی کو طوفانوں سے بچاتے ہیں۔
اس ٹیم میں وہ اجزا شامل نہیں تھے جو کوارٹر فائنل میں پہنچنے والی کسی بھی ٹیم میں ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کی اگلے راؤنڈ تک رسائی حیران کن ہے۔
جیسا کہ امید کی جارہی تھی، پاکستان ہندوستان کے خلاف اپنا پہلا میچ ہار گیا، اور اس کے بعد اعتماد کی شدید کمی کی شکار یہ ٹیم ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں جیسے دفن ہی ہوگئی۔ اس کے بعد اسے ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچنے کے لیے اپنے باقی چاروں میچ جیتنے تھے، اور یہ چاروں ہی میچ اپنے آپ میں ناک آؤٹ میچ تھے۔ اگر ویسٹ انڈیز کے بعد اگلا میچ ساؤتھ افریقہ جیسی خطرناک ٹیم کے ساتھ ہوتا، تو پاکستان کے ساتھ بھی انگلینڈ والا ہی حشر ہوتا لیکن خوش قسمتی سے اسکرپٹ لکھنے والوں نے زمبابوے کو مدِ مقابل قرار دیا۔
زمبابوے کو بمشکل ہرا کر ہمارے باؤلرز نے آخرکار اپنی اس اہلیت کا مظاہرہ کیا جو اب تک چھپی ہوئی تھی اور جسے دیکھنے کے لیے ہم بے تاب تھے۔ اس جیت نے ٹورنامنٹ میں پاکستان کی بجھتی ہوئی شمع کو بھی استحکام دیا۔ اگر زمبابوے کے خلاف جیت نے باؤلرز کو اعتماد دیا، تو متحدہ عرب امارات کے خلاف جیت نے بیٹسمینوں میں خود اعتمادی کو بڑھانے میں مدد دی۔
ان فتوحات نے ٹیم کو اعتماد کے ساتھ ساتھ پریشر سے بھی نجات دلائی اور جب ساؤتھ افریقی شیر میدان میں سامنے آئے، تو ہمارے ایشیائی چیتے پہلے ہی دو ٹیموں کو شکست دے چکے تھے۔
آئرلینڈ کے خلاف پاکستان کی پرفارمنس خامیوں سے پاک تو نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تمام شعبوں میں اتنی اچھی کارکردگی دکھائی کہ کوارٹر فائنلز میں آسٹریلیا کے لیے یہ خطرہ بن سکتے ہیں۔ ٹیم کو ایک فائدہ یہ حاصل ہے کہ میزبان ٹیم کے ساتھ مقابلہ ایڈیلیڈ میں ہوگا جہاں کے حالات پاکستانی ٹیم کے لیے جانے پہچانے ہیں۔
پاکستان کا نیا اثاثہ فارم میں موجود سرفراز احمد ہیں۔ انہیں باہر رکھنے کے مینیجمنٹ کے فیصلے کو پرستاروں اور نقادوں کی جانب سے بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جو یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سرفراز احمد کو ہر موقع دیا گیا لیکن وہ کیچ پکڑنے، بیٹسمینوں کو اسٹمپ کرنے، اور رنز بنانے میں ناکام تھے۔
فواد عالم کی طرح سرفراز کے کیس کو بھی کراچی کے کھلاڑیوں سے ناانصافی سمجھا گیا۔
کیا مینیجمنٹ نے ناصر جمشید کو بہت عرصے تک برداشت کیا؟ ہاں، یہ درست ہے۔ لیکن اسے کراچی والوں کے ساتھ ناانصافی قرار دینا ناقابلِ برداشت ہے۔
اسکواڈ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے کئی کھلاڑی ہیں جن میں چیف سلیکٹر بھی شامل ہیں۔ اسد شفیق جیسے کھلاڑیوں کو لاتعداد چانس دیے گئے لیکن وہ محدود اوورز والے گیم میں اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔
فواد عالم اور سرفراز کے کیس کو وقار یونس جیسے فیصلہ سازوں کی تکنیکی غلطی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس زبردست فاسٹ باؤلر نے اکیلے ہی پانچ فاسٹ باؤلرز کو ایک خطرناک اثاثے میں تبدیل کر دیا ہے۔ آئرلینڈ کے خلاف آخری دس اوورز کی پرفارمنس خاص طور پر قابلِ تعریف ہے جس میں آئرلینڈ صرف 49 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا بیٹھا۔
ایک اور کھلاڑی جنہیں ان کے حق سے زیادہ مواقع ملتے ہیں، وہ شاہد آفریدی ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والے ان کی خراب بیٹنگ اور باؤلنگ اوسط کو بنیاد بنا کر انہیں باہر بٹھانے پر زور دیتے ہیں۔
اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے، تو ہاں یہ بات درست ہے۔ ان کی ٹیم میں شمولیت اکثر سمجھ سے باہر ہوتی ہے، لیکن بوم بوم آفریدی کے اعداد و شمار ہی سب کچھ نہیں ہیں۔
سب سے زیادہ مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے والے کھلاڑیوں میں آفریدی پانچویں نمبر پر ہیں۔ صرف ایک اور ایوارڈ، اور وہ سچن ٹنڈولکر اور سنتھ جیسوریا کے قریب پہنچ جائیں گے۔
انہوں نے لسٹ میں موجود کئی لوگوں سے زیادہ میچز کھیلے ہیں، لیکن اوسطاً وہ ہر بارہ میچز کے بعد ایک مین آف دی میچ ایوارڈ جیتتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوسطاً ہر بارہ میچز کے بعد ہمارا یہ سپر اسٹار ایسا جادو چلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے، جو پاکستان کو فتح کی جانب لے جائے۔
اگر اگلے تین ناک آؤٹ میچز میں آفریدی کا جیک پاٹ لگ جائے، تو ان کے اعداد و شمار بے معنی ہی ہوں گے۔
یاسر شاہ کی بات کی جائے، تو ان کے کھیلنے کے امکانات کم ہیں اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا پاکستان آسٹریلیا کے خلاف اس لیگ اسپنر کی کمی محسوس کرے گا یا نہیں۔ آئرلینڈ کے خلاف ان کو نہ کھلانے پر بہت تنقید ہوئی، لیکن جب محمد عرفان ان فٹ ہیں، تو ان کی جگہ احسان عادل کو کھلانا ایک بہت ہی بروقت اور اچھا فیصلہ تھا۔
ہاں کچھ شبہات موجود ہیں۔ مگر زیادہ تر پاکستانی بیٹسمین اب بھی بڑا اسکور کرنے میں ناکام ہیں۔ سرفراز احمد کی وکٹوں کے درمیان دوڑ کا جذبہ قابلِ تعریف ہے، لیکن ان کی وجہ سے حارث سہیل آؤٹ ہوئے، اور وہ خود بھی رن آؤٹ ہونے والے تھے لیکن عمر اکمل کی وجہ سے بچ گئے۔
بس اب ہمارے دو نوجوان بیٹسمینوں عمر اکمل اور صہیب مقصود کو اپنی مکمل فارم میں کھیلنا ہوگا۔ امید ہے کہ وہ فاسٹ باؤلرز کی کارکردگی سے مثال حاصل کریں گے۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارے چیتوں کو روکنا ناممکن ہوگا۔

0 comments: