Google_plus Pinterest Vimeo RSS

کیمرے کو دیکھ کر خوفزدہ ہوجانے والی بچی


گزشتہ دنوں ایک شامی بچی کی کیمرے کو گن سمجھ کر ہاتھ اٹھانے کی تصویر منظرعام پر آئی تھی جس نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اب شام سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور بچی کی تصویر سامنے آئی ہے جو کہ اردن کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے اور اس نے بھی ایک امدادی ورکر کے کیمرے کو ہتھیار سمجھ کر روتے ہوئے خوف سے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا لیا۔
ریڈ کراس سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ورکر نے یہ دل خراش تصویر نومبر میں لی تھی مگر اسے بچی کے دہشت زدہ ہونے کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوسکا جب تک اس نے اسے ایڈیٹ نہیں کیا۔
رینی شکلتوف نامی اس ورکر کو اس موقع پر احساس ہوا کہ وہ بچی اس کے کیمرے کو ہتھیار سمجھ کر اتنی خوفزدہ ہوگئی تھی اس نے خود کو سرنڈر کرنے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کرلیے۔
اس ورکر نے برطانوی روزنامے ڈیلی میل کو بتایا کہ کمپیوٹر پر اس بچی کی تصویر دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں اس کے ردعمل سے شاک ہوگیا، اس کے چہرے پر خوف اور آنسو شامی بچوں کی اس نسل کے المیے کو واضح کررہے تھے۔
یہ بچی اردن کے دارالحکومت عمان سے 62 میل مشرق میں واقع ازراق نامی پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے تاہم اس ورکر کو اس بچی کا نام نہیں معلوم ہوسکا۔
اس کیمپ میں شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں فرار ہوکر آنے والے 17 ہزار افراد مقیم ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ دنوں ہی ہودیا نامی 4 سالہ بچی کی ایک تصویر سامنے آئی تھی جس نے کروڑوں انسانوں کے دل کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
—. فوٹو اوپن سورس میڈیا
—. فوٹو اوپن سورس میڈیا
جب فوٹوگرافر نے اپنے کیمرے کا رخ اس کی جانب کیا تو اس معصوم بچی نے اس کو ہتھیار خیال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ بلند کردیے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خوف اس کے چہرے پر پھیلا ہوا ہے۔
یہ تصویر ترکی کے فوٹو گرافر عثمان سگرلی نے گزشتہ سال دسمبر میں شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں کھینچی تھی۔جیسے ہی انہوں نے اس بچی کی تصویر لینے کے لیے کیمرے اٹھایا وہ سہم گئی۔
عثمان کہتے ہیں”اسے محسوس ہوا کہ یہ بندوق ہے اور اب گولی چلے گی۔ وہ ڈر گئی، اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور ہاتھ اٹھا دیے۔“
یہ تصویر پہلی مرتبہ جنوری میں ترکی کے اخبار میں شایع ہوئی تھی۔ غزہ پٹی کی فوٹو جرنلسٹ نادیہ ابو شبان نے جب اسے گزشتہ منگل کو ٹوئیٹ کیا تو یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔

0 comments: