Google_plus Pinterest Vimeo RSS

دنیا کے غریب ترین صدر کی تقلید ممکن نہیں

یوروگوائے میں اتوار کو نئے صدر کے لیے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں جو بھی امیدوار کامیاب ہوا اس کے سامنے ایک ایسی مثال ہو گئی جس کی تقلید کرنا مشکل ہی ناممکن ہو گا۔
یوروگوائے کے آئین کے مطابق مسلسل دوسری مرتبہ صدر کے انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی کی وجہ سے موجودہ صدر ہوزے موہیکا کو عنان اقتدار نئے صدر کے حوالے کرنا پڑے گا۔ جوناتھن گلبرٹ نےان کی زندگی پر نظر ڈالی ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ ہوزے موہیکا کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر کس طرح یاد رکھا جائے گا۔
ہوزے موہیکا کی زندگی کسی صدر کی سوانح حیات سے زیادہ کسی دیومالائی فلم کا سکرپٹ لگتی ہے۔
سنہ 60 اور 70 کی دہائی میں جب وہ گوریلا گروہ ’ٹمپاماروس‘ کے ساتھ گوریلا جنگ لڑے رہے تھے تو ایک موقعے پر پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ میں انھیں چھ گولیاں لگیں لیکن وہ بچ گئے۔
ہوزے موہیکا انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں
گوریلا جنگ کے دوران وہ چار مرتبہ گرفتار ہوئے اور دو مرتبہ وہ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ایک مرتبہ قیدیوں نے اندر سے سرنگ کھودی تھی اور دوسری مرتبہ ان کے ساتھیوں نے باہر سے سرنگ بنائی تھی۔
گرفتاری کے دوران انھیں فوج کے عقوبت خانوں میں شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ جسمانی طور پر انتہائی کمزور اور لاغر ہو گئے اور نفسیاتی اور ذہنی دباؤ کا شکار بھی رہے۔
سنہ 1985 میں آئینی حکومت کے قیام کے بعد موہیکا نے جو ’پےپے‘ کے نام سے مقبول ہیں، اپنے سخت گیر سوشلسٹ لہجے کو تبدیل کیا اور سیاست دان کے طور پر اپنے اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی۔
موہیکا نے 13 برس قید میں گزارے
موہیکا کو 13 سال مسلسل قید کے بعد سنہ 1985 میں رہا کیا گیا تھا۔
ایک ایسے خطے میں، جہاں نجی شعبے کو اکثر بائیں بازو کے سیاست دان معاشرے کے تمام سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کی بنیاد قرار دیتے ہیں، وہاں موہیکا اور ان کی ’بارڈ فرنٹ کوئلیشن‘ جماعت نے اعتدال کی راہ اختیار کی۔
یوروگوائے کے دارالحکومت مونٹی ویڈیو کے ایک سیاسی مبصر آسکر بوٹنیلی کا کہنا ہے کہ موہیکا کے خیالات گذشتہ 20 برس میں یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ ہمشیہ عام لوگوں کے لیے تشویش کا شکار رہے۔
مونٹی ویڈو کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرنا ہو گی تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔
سادہ طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
کھیتیوں کے درمیان ایک غیر آباد فیکٹری کے قریب معمولی سے گھر کو وہ زرعی سکول میں بدلنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وسائل کا ایک حصہ غریبوں اور کمزوروں کو دیا جانا چاہیے لیکن ہمیں سرمایہ دارانہ نظم کو مفلوج نہیں کرنا چاہیے، ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔‘
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2005 میں براڈ فرنٹ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یوروگوائے کی بیرونی سرمایہ کاری میں 5.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔
غربت کی شرح سنہ 2005 کے بعد سے اب تک 40 فیصد سے کم ہو کر 13 فیصد رہ گئی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس 34 لاکھ آبادی والے ملک میں گذشتہ 30 برس میں دولت کی تقسیم اتنی مساویانہ نہیں تھی جتنی آج ہے۔
موہیکا، جن کی مدتِ صدارت مارچ میں ختم ہو رہی ہے، کہتے ہیں کہ یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
ہوزے موہیکا کے ناقدین کی بھی کمی نہیں ہے جو ان کی بےڈھنگے طرزِ حکمرانی اور متضاد بیانات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
ملک کے اندر کچھ لوگ ان پر ان کی طرز حکمرانی کی وجہ سے تنقید بھی کرتے ہیں
بوٹنیلی کا کہنا ہے کہ موہیکا کے طور طریقوں سے لوگ بیزار ہو گئے ہیں اور اب وہ اس سے زیادہ چاہتے ہیں۔
ماہرِ عمرانیات سانتیاگو کارڈوز کہتے ہیں کہ بیرون ملک ہوزے موہیکا کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے: ’لیکن ان کی حکومت ان کی طرح منظم نہیں ہے۔‘
بہت سے لوگ انھیں صرف اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ بہت مخلص ہیں اور بہت سادہ ہیں۔
موہیکا پر کتاب لکھنے والے مصنف سرگیو اسرائیل کا کہنا ہے کہ حکومت چلانا نہیں بلکہ لوگوں کو سمجھنا اور ان کے دل کی بات کرنا ان کی بڑی خوبی ہے۔
ایک تازہ ترین سروے کے مطابق موہیکا کی مقبولیت کا گراف 60 فیصد پر ہے۔
ہوزے موہیکا صدر ہوتے ہوئے بھی اپنی پرانی سی گاڑی میں سفر کرتے ہیں
گو کہ آئین کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے لیکن وہ سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔

موہیکا کا المیہ

اپنی صدارت کے دوران موہیکا نے بہت سی انقلابی سیاسی اور سماجی اصلاحات کیں جن میں سنگ میل کا درجہ رکھنے والا وہ قانون بھی شامل ہے جس کے تحت ملک میں بھنگ کی پیدوار کو قومیا لیا گیا تھا۔
اس قانون کو لوگ ’مطلق العنانیت‘ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کے تحت بھنگ کی خریداری پر ایک حد متعین کر دی گئی ہے اور بھنگ پینے والوں کو سرکاری رجسٹر میں اندراج کرانا پڑتا ہے۔
اس معاملے میں موہیکا ان سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ درست ہیں: ’وہ میرے بچے ہیں اور میں ان کو کوئی ایسا تحفہ نہیں دے سکتا کہ وہ نشے کے عادی بن جائیں اور نشہ پی پی کر ان کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔‘
ایک ’ٹیک اوے‘ میں کام کرنے والے پبالو المیرو صدر سے اتفاق کرتے ہیں۔ مونٹی ویڈو کے ساحل پر کش لگاتے ہوئے انھوں نے کہا: ’ریاست کا کام ہے کہ وہ مختلف چیزوں کو کنٹرول کرے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔‘
صدارتی انتخاب میں شامل دونوں امیدوار اقتدار میں آنے کے بعد شاید اس قانون کو بدلنا چاہیں۔ لوئس لکالے پو جو دائیں بازو کی جماعت نیشل پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس قانون کی کھلی مخالفت کرتے ہیں جبکہ صدر موہیکا کی اپنے جماعت براڈ فرنٹ کے امیدوار تباہے وازکوز بھی اس پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔
ایک سیاسی مبصر کنزانی کا کہنا ہے کہ جو بھی ان کی جگہ لے گا اس کے لیے عالمی سطح پر ان کی طرح کی پذیرائی حاصل کرنا آسان نہ ہوگا۔

سادہ زندگی

انھوں نے بھنگ کی کاشت کو قومیا لیا تھا
کنزانی نے کہا کہ موہیکا نے ’دنیا کے غریب ترین صدر‘ ہونے کی جو شہرت حاصل کی ہے اس کی یوروگوائے کی گذشتہ کئی دہائیوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
ماہرعمرانیات سنتیاگو کارڈوزو کے مطابق ان کا سادہ رہن سہن اور طرز زندگی کی لوگ تعریف تو کرتے ہیں لیکن وہ اسے اپنانا پسند نہیں کریں گے۔
کارڈوزو کا کہنا تھا کہ وہ قرون وسطیٰ کے دور کے کسی سادھو کا جدید یوروگوائن روپ ہو سکتے ہیں اور ان پر ایک اچھی فلم بن سکتی ہے۔
موہیکا کو بھی اس کا پوری طرح احساس ہے۔
اپنے کمرے میں جسے ابھی تک لکڑیاں جلا کر گرم رکھا جاتا ہے، مخصوصی کالی جیکٹ اور پیروں میں معمولی چپل پہنے بیٹھے موہیکا کا کہنا تھا: ’وہ میری سادگی کی تعریف تو کریں گے، لیکن وہ میری طرح رہنا پسند نہیں کریں گے۔ میں کسی ویرانے کے بھوت کی مانند ہوں۔‘
بعد میں آنے والے صدور کے لیے ان کی تقلید کرنا آسان نہیں ہو گا

0 comments: