Google_plus Pinterest Vimeo RSS

فلم ریویو : جلیبی جس کی چاشنی طلب بڑھا دے

لولی وڈ کی نئی فلم جلیبی ڈائریکٹر یاسر جسوال کی تیز رفتار کرائم ڈراما فلم ہے اور یہ بیس مارچ کو ملک بھر کے سینماﺅں میں ریلیز کی جارہی ہے۔
جلیبی مسکوٹ : 73 فورڈ مستانگ
جلیبی مسکوٹ : 73 فورڈ مستانگ
اس فلم کا پریمئیر گزشتہ دنوں ہوا جس میں اسٹارز نے شرکت کرکے تقریب کو چار چاند اور ہمیں اس کی کہانی کو جانچنے کا موقع فراہم کیا۔

فلم کی کہانی

جلیبی ناظرین کی منتظر
جلیبی ناظرین کی منتظر
یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستانی پراسرار نامعلوم افراد کے وہم کے شکار ہیں (خاص طور پر ان دنوں) اور یاسر جسوال کی جلیبی بھی اس تھیم سے کچھ زیادہ دور نہیں۔
دو دوستوں کی فلم کے مرکزی کرداروں میں مزاح سے محروم بلو (دانش تیمور) اور تفریح کے دلدادہ بگا (علی سفینہ) شامل ہیں جو کہ چھوٹے پیمانے کے دھوکے باز ہیں جو قرضے، جرم، ڈکیتی اور قتل کے بگولوں میں پھنس جاتے ہیں۔
فلم کے آغاز میں بگا اور بلو اپنی زندگیوں کی سب سے بڑی دوہری مشکل میں اس وقت پھنس جاتے ہیں جب وہ شہر کے پراسرار مافیا ڈان (جسے بادشاہ بھی کہا گیا ہے) کی ایک بینک ڈکیتی کو خراب کردیتے ہیں اور اب یہ ڈان ڈارا (عدنان جعفر) چاہتا ہے کہ یہ دونوں ایک دن کے اندر اسے پانچ کروڑ روپے ادا کریں۔
یہ کہانی کا وہ دائرہ ہے جو لاتعداد دیگر فلموں میں بھی پیش کیا جاچکا ہے۔
تاہم یہ کہانی اس وقت دلچسپ ہوجاتی ہے جب یہ دونوں دوست بیرون ملک سے واپس آنے والے علی (وقار علی خان) اور اس کے بھائی جمی (عذیر جسوال) سے ملتے ہیں، یہ دونوں اسی مافیا سے اپنے والد کا قتل کا بدلہ لینے کے خواہشمند ہوتے ہیں جنھیں ان کے بچپن میں ہلاک کیا جاتا ہے۔
علی سفینہ اور دانش تیمور فلم جلیبی کے ایک سین میں
علی سفینہ اور دانش تیمور فلم جلیبی کے ایک سین میں
اب علی جان بوجھ کر ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ بیٹی ایمان (شکیبہ امام) سے پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہوتا ہے جس کے جلد وزیراعظم بننے کا امکان اور اس مافیا کا گاڈ فادر تصور کیا جاتا ہے۔
جب ایمان اپنے والد (ساجد حسن) کے بارے میں کچھ اہم معلومات فراہم کرتی ہے تو علی ایمان کے والد کو اغوا کرنے اور اس کی حقیقت میڈیا کے سامنے لانے کا منصوبہ تیار کرتا ہے، مگر بلو اور بگا سے ملنا ایسی پیچیدگیوں کا باعث بن جاتا ہے جس کی اسے توقع تک نہیں ہوتی۔
کہانی میں پیار کی ازلی تکون بھی ہے یعنی ژالے سرحدی جو بنوں نامی جدید عہد کی طوائف کے روپ میں نظر آئی ہیں، جس سے بلو اور بگا رابطہ کرتے ہیں تاکہ اپنا قرضہ ادا کرسکیں اور اس موقع پر وہ علی کے عشق مین گرفتار ہوجاتی ہے اور وہ ہر طرح سے اس کی مدد کی خواہشمند ہوتی ہے۔
ژالے سرحدی جو فلم میں بنوں کا کردار ادا کررہی ہیں
ژالے سرحدی جو فلم میں بنوں کا کردار ادا کررہی ہیں
چونکہ فلم کا نام جلیبی ہے تو اسی لیے اس ایکشن تھرلر فلم میں کافی پیچ و کتم نظر آتے ہیں، جبکہ اس کا اختتام کافی طویل اور دیکھنے والوں کے لیے اس کو کاٹ چھانٹ کرنا چاہئے تھا تاکہ فلم کو زیادہ مصالحے دار بنایا جاسکتا۔
اس کے باوجود سینما فوٹوگرافر مو اعظمی کی صلاحیت پاکستان کے مختلف پہلوﺅں کو فلم کے کرداروں سے توجہ ہٹائے بغیر سامنے لاتی ہے جو کہ قابل تعریف ہے، اس کے علاوہ بھی اس فلم میں اینیمیشن سے لائیو ایکشن کا امتزاج بھی زبردست ہے۔
کیمرہ کی حرکت، اینگلز اور کرداروں کے کلوز اپ شاٹس ڈائیلاگ سے زیادہ کہانی کو بیان کرتے ہیں، ہائی کوالٹی ویژولز بھی اے آر آر آئی الیکسا ایچ کیمرے کی خاصیت ہے جس پر پوری فلم شوٹ ہوئی ہے۔
فلم کا اینیمیٹیڈ انداز
فلم کا اینیمیٹیڈ انداز
اس کی موسیقی قیاس، عذیر جسوال اور حیمرا ارشد کی ہے جو کہ فلم کے ردھم اور رفتار سے میل کھاتی نظر آتی ہے۔
تاہم فلم کی خامی شکیبہ امام اور وقار علی خان کی جوش و خروش سے محروم اداکاری ہے، وقار کا ڈائیلاگ ادا کرنے کا انداز ایسا ہے جیسے وہ کسی میوزک چینیل میں کوئی گانا متعارف کرا رہے ہو، جبکہ شکیبہ کا کردار ایسا ہے جیسے کوئی ٹی وی شو میں توقع کررہا ہو کہ اس کے چہرے کی سرجری ہونے والی ہو۔
اگر علی سفینہ کا بے عیب مزاح اور ژالے سرحدی کی بے ساختہ ڈائیلاگ ڈیلیوری نہ ہوتی تو میں خود کو ڈوپٹے میں ڈھانپ کر فلم سینما کے ٹھنڈے فلور میں سوتے ہوئے وقت گزارتی۔
ساجد حسن فلم میں مافیا باس کے کردار میں
ساجد حسن فلم میں مافیا باس کے کردار میں
مگر ان دونوں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی زبردست انداز میں نمائندگی کی اور مجھے اونگھنے سے روکے رکھا۔
مجھے حیرت نہیں ہوگی اگر ماڈل سے اداکاری کی جانب آنے والی ژالے سرحدی کسی بین الاقوامی ڈائریکٹر کی نظروں میں آکر اگلی فریدہ پنٹو بن جائیں۔
ایک آئٹم نمبر میں وہ پرکشش نظر آئیں اور فلم کے کمزور ترین حصے کو کلاسیک بنادیا۔
فلم میں ایک اور زبردست کام بڑے ولن دارا نے سرانجام دیا جو عدنان جعفر نے ادا کیا، اس طرح کے کرداروں کے ذریعے اوپر تک جانا بہت آسان ہے مگر انہوں نے ڈرامائی انداز کو کم سے کم برقرار رکھا ہے۔
یہ دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے کہ پاکستانی سینما اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی مقامی فرد کو فلم دیکھنے کے لیے محض اس لیے نہیں جانا پڑتا کیونکہ وہ پاکستانی" اور " ہماری" ہے، اور نہ اب ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر انہیں دیکھ کر خود کو محب الوطن ثابت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے چاہے وہ کتنی بھی بیزارکن اور نرم ہو۔
پاکستانی فلمیں حب الوطنی کے منتر سے ہٹ کر بھی خود کو روشن بنانے اور لوگوں کو سینماﺅں کی جانب لانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
توقع ہے کہ جلد وہ وقت آئے گا جب پاکستانی فلموں کے ریویو جو ڈائریکٹر کی انا کو توڑنے کے لیے نہیں ہوں گے بلکہ ان کے اسکرپٹ کے تنوع اور اپچ، تھیم، کرداروں اور مجموعی اداکاری و ہدایتکاری کی پیشکش کو دیکھتے ہوئے حقیقی جائزہ اور تنقید کی جائے گی۔

0 comments: