Google_plus Pinterest Vimeo RSS

رضاربانی کے لیے حکومتی حمایت کی اصل کہانی ؟


اسلام آباد : سیاسی مصالحت وفاقی دارالحکومت میں منگل کو عروج پر نظر آئی۔
اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے ساتھ ظہرانے کی دعوت کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے پیر کی شب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پی پی پی رہنماءرضا ربانی کی بطور چیئرمین سینیٹ نامزدگی کی توثیق کردی۔
شام میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے وزیراعظم کی میزبانی اپنی رہائش گاہ میں کی جہاں نواز شریف نے رضا ربانی کی نامزدگی کی حمایت کا رسمی اعلان کیا۔
مگر وزیراعظم کا سخت چہرہ اور معمول کی حس مزاح کی کمی کے حوالے سے وزیراعظم کی میزبانی میں دوپہر کو ہونے والے اجلاس میں شریک ایک شخص نے ڈان کو بتایا کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نواز لیگ کے سربراہ نے یہ اعلان بھاری دل کے ساتھ کیا ہے۔
پیر کی شب تک حکمران جماعت سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے حمایت کے حصول کے لیے کوشاں تھی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ایم کیو ایم سربراہ الطاف حسین کے درمیان طویل عرصے بعد ہونے والا ٹیلیفونک رابطہ بھی شامل تھا۔
تاہم پیر کی رات ہی پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے طاقت کے اظہار نے مسلم لیگ ن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
وزیراعظم کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق پی پی پی امیدوار کی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے حمایت کے فیصلے کی دو بنیادی وجوہات پی ٹی آئی اور مستقبل کی قانون سازی ہیں۔
حکمران جماعت کے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ناقابل پیشگوئی سربراہ عمران خان، جنھوں نے منگل کو 2015 کو انتخابی سال قرار دیا، پر سمیٹے انتظار کررہے ہیں " نواز لیگ ایک کمزور پارلیمنٹ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی"۔
مولانا فضل الرحمان اور اے این پی کے رہنماءاسفندیار ولی خان کے اصرار نے بھی وزیراعظم پر اثرات مرتب کیے، ان دونوں کا موقف اس لیے بھی وزن رکھتا تھا کیونکہ وہ گزشتہ برس پی ٹی آئی، پی اے ٹی کے احتجاج کے دوران پارلیمانی جماعتوں کے متحد موقف کا حصہ تھے جس نے حکومت کو بچایا تھا۔
ذرائع نے بتایا " اگر پی ٹی آئی نے کل ایک اور احتجاجی تحریک شروع کردی تو پھر؟ وزیراعظم نے رضا ربانی کی امیدواری کی توثیق کرکے ایک اچھا اقدام کیا ہے"۔
دوسری چیز ایک موثر سینیٹ ن لیگ کے لیے مارچ 2018 تک رواں قانون سازی کے لیے لازمی ہے اس وقت آئندہ عام انتخابات میں بھی چند ماہ ہی باقی رہ جائیں گے۔
حکمران جماعت کے ایک رکن پارلیمنٹ کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے لیے پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان سخت مقابلہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان عدم اعتماد پیدا کرنے کے لیے کافی ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت آنے والے دنوں مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
رضا ربانی کا غیرمتنازع پس منظر جو کہ حقیقی جمہوریت پسند کی شہرت بھی رکھتے ہیں، نے بھی نواز لیگ کو اس نامزدگی کو منظور کرنے کے لیے تیار کیا۔
نواز لیگ کے ذرائع کے مطابق " رضا ربانی متعدد مواقعوں پر اپنی پارٹی کی حکومت پر بھی تنقید کرچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت کے اندر بھی متعدد افراد نے انہیں ایک اچھا امیدوار قرار دیا"۔
طاقتور وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار جن کے رضا ربانی سے جمہوریت کی بحالی کے لیے اتحاد کے دنوں سے اچھے تعلقات ہیں، کہ بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے ان کی حمایت کے لیے خاص طور پر اہم کردار ادا کیا۔
مسلم لیگ ق کے ایک سینیٹر کے مطابق سب سے بڑھ کر جب پی پی پی ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت اپنے پارٹی امیدوار کے لیے حاصل کرنے میں کامیابی ہوگئی تو نواز لیگ کے پاس مصالحتی پوزیشن کے سوا آپشن نہیں رہا تھا۔
مسلم لیگ ن کے رکن پارلیمنٹ نے تسلیم کیا کہ نمبرز حکومت کے حق میں نہیں مگر " اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری تعداد اتنی کم ہے کہ اچھا مقابلہ بھی نہ کرسکیں"۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پانچ مارچ کو کامیاب ہونے والے تمام 43 سینیٹرز کی کامیابی کے نوٹیفکیشنز جاری کردیئے ہیں، جبکہ راحیلہ مگسی کا معاملہ عدالت میں زیرالتوا ہے اور فاٹا کے چار سینیٹرز تاحال منتخب نہیں ہوئے ہیں۔

0 comments: