Google_plus Pinterest Vimeo RSS

پاکستان کی شکست: کیا ذمہ دار ٹیم سیلیکشن؟


آج کے کوارٹر فائنل سے پہلے ہی ایک موقع ایسا تھا، جب واضح ہو گیا تھا کہ پاکستان آسٹریلیا کے خلاف میچ نہیں جیت پائے گا۔ نہیں، یہ محمد عرفان کی انجری نہیں تھی، بلکہ ان کی انجری پر دیا جانے والا ردِ عمل تھا۔
ایسا لگا جیسے پاکستان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ عرفان کے بغیر جیت ہی نہیں سکتا۔
ان کی انجری کو پاکستان کے لیے شدید دھچکا سمجھ کر مصباح الحق حق بجانب تھے۔ لیکن کوارٹر فائنلز میں پہنچنے کے باوجود دو باؤلرز کی معطلی، اور عمر گل اور جنید خان کے نہ ہونے پر افسردگی شاید اس بات کی علامت تھی کہ دو فاسٹ باؤلروں کے بہترین متبادل حاصل کر لینے کے باوجود مصباح اب تک ماضی سے نکلے نہیں ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اس کا الزام تھوڑا بہت سوشل میڈیا پر کی جانے والی بے شمار تنقید پر بھی جاتا ہے، جو اب کھلاڑیوں کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹس تک جا پہنچی ہے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں کپتان کو جھنجھوڑ کر یاد دلاؤں کہ مصباح صاحب، آپ کوارٹر فائنل میں پہنچ چکے ہیں۔ اجمل، حفیظ، گل، اور جنید کو بھول کر اب ماضی سے نکل آئیں۔
یہ شکستہ ذہنیت آج کے کھیل میں بھی دکھائی دی۔ صرف وہاب ریاض ہی زخمی شیر کی طرح کھیلے، جبکہ باقی ٹیم میں ایسا کوئی جوش و جذبہ نظر نہیں آیا۔
`
`
پاکستان بالکل بھی 213 بنانے کا مستحق نہیں تھا، لیکن پھر بھی قسمت سے اتنے بنا لیے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی بیٹسمین ایل بی ڈبلیو یا بولڈ نہیں ہوا، اور سارے ہی اس وکٹ پر کیچ آؤٹ ہوئے جو کہ بنی ہی بیٹنگ کے لیے تھی۔
اگر پوری اننگز کے دوران ہمارے کھلاڑیوں کا ساتھ قسمت نے نہ دیا ہوتا، تو ہمارا ٹوٹل اسکور اس سے کہیں کم ہوتا۔ جس لاپرواہی سے وہ شاٹ کھیل رہے تھے، اس کو دیکھ کر تو یہی لگ رہا تھا کہ ہمارے کھلاڑیوں کو خود پر اتنا بھی یقین نہیں کہ 50 اوورز پورے کر سکیں گے۔
جب باؤلنگ شروع ہوئی تو عرفان کی کمی محسوس ہوئی، لیکن یہ ہمارے ہاتھ میں تو نہیں تھا نا؟ ان کے علاوہ ہمیں یاسر شاہ کی بھی کمی محسوس ہوئی جو اسٹرائکر باؤلر کی عدم موجودگی میں اس ٹیم کے خلاف ایک زبردست متبادل تھے جسے انہوں نے حال ہی میں ٹیسٹ سیریز میں چاروں شانے چت کر دیا تھا۔
لیکن مجھے مصباح اور وقار کی دفاعی ٹیم سلیکشن پر کوئی حیرت نہیں ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مصباح نے جارحانہ حکمتِ عملی صرف تب اپنائی جب ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا، اور جو زمبابوے اور ساؤتھ افریقہ کے خلاف میچز میں نظر آیا۔ لیکن جب ٹورنامنٹ کے باقی وقت میں ان کے پاس چوائس تھی، تو انہوں نے دفاعی ترین حکمتِ عملی کا انتخاب کیا۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں مذاقاً شرکاء سے پوچھا تھا کہ وہ مصباح کی طرح ٹھنڈے انداز میں کھیلنا اور ہارنا چاہتے ہیں، یا بڑے انعامات کے لیے بڑا رسک لینا چاہتے ہیں۔
ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے میں نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ مصباح تب تک جارحانہ انداز نہیں اپنائیں گے، جب تک ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچے، اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان اس ٹورنامنٹ کے فارمیٹ کی وجہ سے کوارٹر فائنلز کے لیے کوالیفائی کر لے گا،اور اسے اب صرف ناک آؤٹ مرحلے کے لیے یاسر شاہ اور سرفراز احمد جیسے میچ ونر کھلاڑیوں پر توجہ دینی چاہیے۔
کاش میری یہ پیشنگوئی سچ نہ ہوئی ہوتی۔ کاش مینیجمنٹ کوارٹر فائنلز سے پہلے ہی میچ ونرز کو فارم میں لا کر مجھے اور دیگر پاکستانی فینز کو غلط ثابت کر دیتی۔ تین کھلاڑی ایسے تھے کہ جن کے لیے فینز تڑپ رہے تھے کہ انہیں کھلایا جائے۔ وہ تین کھلاڑی سرفراز احمد، یاسر شاہ، اور فواد عالم تھے۔ دو تو ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل تھے لیکن انہیں کم ہی کھلایا گیا۔ ان میں سے ایک، سرفراز احمد، نے اپنے تین میچز میں سے دو ہمیں جتوائے۔ لیکن انہیں بھی تب کھلایا گیا جب ٹیم مینیجنمنٹ کے پاس اور کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔
دوسری جانب بیچارے یاسر شاہ کو ورلڈ کپ کے بہترین اسپنرز کے خلاف کھلایا گیا جبکہ باؤلر عمران طاہر جو میری رائے میں یاسر شاہ جتنے اچھے نہیں ہیں، نے ساؤتھ افریقہ کے لیے ہر گیم کھیلا ہے اور ہمیشہ ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پھر صرف فواد عالم بچتے ہیں، جن کے بارے میں افواہیں ہیں کہ انہیں ڈراپ کرنے کی وجہ انہیں سست سمجھا جانا ہے۔ ورلڈ کپ میں کئی مقامات پر پاکستان اپنے 50 اوورز بھی پورے نہ کر سکا۔ ایسے میچز میں کھلاڑی 10، 20 رنز بنا کر آؤٹ ہوتے رہے۔ کیا مینیجمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ جلد بازی میں بنائے گئے یہ 10، 20 رنز فواد عالم کے دھیمے انداز میں بنائے گئے 50 رنز سے بہتر ہیں؟
سلیکٹرز، کوچ، اور کپتان کو اس بات کا براہِ راست جواب دینا چاہیے کہ کیوں فواد عالم جو کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں، کو نہیں کھلایا گیا۔ یہ نہ صرف ایک کرکٹر کا مذاق اڑانے والی بات ہے بلکہ کرکٹ سے محبت کرنی والی قوم کا بھی مذاق ہے۔ سنا ہے کہ مینیجمنٹ فواد عالم کی اسکواڈ میں شمولیت کی اتنی ہی خلاف تھی، جتنا کہ وہ سرفراز اور یاسر شاہ کی 11 رکنی ٹیم میں شمولیت کے خلاف تھی۔
صرف یہی نہیں، بلکہ سلیکٹر محمد اکرم نے انکشاف کیا، اور جسے میڈیا رپورٹس نے بھی ثابت کیا کہ اسکواڈ سلیکشن سے پہلے ناصر جمشید ان فٹ تصور کیے جارہے تھے اور فارم میں نہیں تھے، لیکن کوچ اور کپتان بہت ہی شدت سے ان کا انتخاب چاہ رہے تھے۔ محمد حفیظ نے بعد میں کہا کہ وقار یونس نے ایک اسکیم تیار کی تھی تاکہ انہیں ہٹا کر ناصر جمشید کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔
سرفراز احمد، فواد عالم، اور یاسر شاہ کے ساتھ جو ہوا، وہ محمد حفیظ کے اس دعوے کو پختگی فراہم کرتا ہے کہ وقار یونس سخت گیر تھے اور ٹیم کو ڈکٹیٹر کی طرح کنٹرول کرتے تھے۔ اور اگر ایسا ہے، تو وقار یونس کو اپنے اقدامات کے لیے جواب دینا ہو گا۔
فواد عالم کو باہر رکھنے پر میری تشویش یہ ہے کہ وہ ایسے کھلاڑی تھے جن پر سالہا سال وسائل و وقت خرچ کیا گیا، لیکن ایک بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے انہیں باہر کر دیا گیا۔ اور اسی وقت انہی جیسے بائیں بازو کے کھلاڑی کو بغیر پرفارمنس رکھ لیا گیا۔ آخر کیوں حارث سہیل کو فواد عالم کی جگہ رکھا گیا؟
حارث سہیل بار بار گیند فیلڈرز کی جانب پہنچا دیتے ہیں جس سے خود ان پر ہی پریشر بنتا ہے۔ اور پھر اچھا شاٹ کھیلنے کی تلاش میں وہ آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ بالکل احمد شہزاد جیسے ہیں۔
دوسری جانب ہمارے پاس سرفراز احمد اور فواد عالم جیسے کھلاڑی ہیں، جو آسانی سے گیپ نکال کر اسکور کر لیتے ہیں، لیکن انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
یہ ایسے سلیکشن پراسس کی علامت ہے جس میں کوئی شفافیت نہیں، اور جہاں عام سے کھلاڑیوں کو صرف اندازوں کی بنا پر شامل کر لیا جاتا ہے، جبکہ مستحق کھلاڑیوں کو جگہ نہیں دی جاتی۔ یہ کلچر جس میں صرف ایک شخص کے پاس ہی ساری طاقت ہو، عمران خان سے شروع ہوا۔ ان کے دور میں یہ ضروری تھا کیونکہ سسٹم کرپٹ تھا اور عمران کسی پر بھی یقین نہیں کرنا چاہتے تھے۔
لیکن ہمارے زیادہ تر سلیکٹرز عمران خان کے ہی شاگرد ہیں۔ وہ کیوں پھر ٹیم مینیجمنٹ کے سامنے جھک رہے ہیں؟ وہ کیوں ناصر جمشید اور فواد عالم کے مسئلے پر جم کر کھڑے نہیں ہو سکے؟
اگر ایک کھلاڑی کو فرسٹ کلاس اور انٹرنیشنل میچز میں کارکردگی دکھانے کے باوجود سلیکٹ نہیں کیا جاسکتا، تو پھر وہ اور کیا کرے؟
ہر ورلڈ کپ میں شکست کے بعد ہم کلین اپ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی نہیں کرتے۔ 2019 کے لیے ابھی سے ہی تیاری شروع کرنی ہوگی، اور اس کا مطلب ہے کہ مسائل کھڑے کرنے والے پرانے کھلاڑیوں شعیب ملک اور کامران اکمل کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔
احمد شہزاد کو بھی ایک طرف رکھنا ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ بھی نام بڑے اور درشن چھوٹے والا معاملہ ہے۔
فیلڈنگ کوچ کے ساتھ ہونے والے تنازع میں تین کھلاڑیوں احمد شہزاد، شاہد آفریدی، اور عمر اکمل کا نام آیا، اور تینوں ہی ٹورنامنٹ میں فیل ہوگئے۔ ان تینوں کے ساتھ ڈسپلن کے مسائل رہے ہیں، اور کام کے وقت ناکام ہو جاتے ہیں۔ چاہے یہ آفریدی کا گیند چبانا ہو، شہزاد کا سری لنکن کھلاڑیوں کو جہنم کی آگ سے ڈرانا ہو، یا عمر اکمل کا اپنے بھائی کے لیے جھوٹی انجریز بنانا ہو، تینوں ہی سمجھتے ہیں کہ وہ بہت زبردست کھیل سکتے ہیں، لیکن ایسا ہے نہیں۔
مصباح الحق جو پاکستان کے اکلوتے لڑاکا کھلاڑی رہے ہیں اور جنہوں نے ملک کی زبردست خدمت کی ہے، انہیں جاتا ہوا دیکھنا بہت افسردہ کن ہوگا۔ خوش قسمتی سے وہ ٹیسٹ کرکٹ میں ابھی بھی پرفارم کرتے رہیں گے۔ اور دوسری جانب آفریدی ٹی 20 کے کپتان بنے رہیں گے، لیکن اب وقت ہے کہ پاکستان ون ڈے اور ٹی 20 کی قیادت کے لیے ایک فریش ٹیلنٹ کی کھوج کرے۔
کپتان منتخب کرتے وقت ہمیں طویل مدت کے لیے سوچنا چاہے۔ ہمیں سرفراز احمد، فواد عالم، اور یہاں تک کہ وہاب ریاض پر بھی کپتان کے لیے غور کرنا چاہیے۔ اور اس نئے کھلاڑی کو ہی ون ڈے اور ٹی 20 کی قیادت سونپی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ آفریدی اور یونس خان جیسے کھلاڑی جن کی عزتِ نفس اتنی بھی نہیں کہ وہ خود تمام محدود اوور میچز سے ریٹائر ہو سکیں، انہیں اب ٹیم میں نہیں رہنے دینا چاہیے۔ اگر یونس خان سلیکٹرز کو بلیک میل کرتے ہیں کہ وہ ٹیسٹ سے بھی استعفیٰ دے دیں گے، تو ایسا ہونے دیں۔
ان سینیئر کھلاڑیوں کو اس وقار سے کچھ سیکھنا چاہیے، جس سے سہواگ، یووراج سنگھ، اور ظہیر خان نے کام لیا جب انہیں انڈیا کے ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں کہ اگر یونس خان اور شاہد آفریدی کو ٹورنامنٹ میں شامل نہ کیا جاتا تو وہ کس طرح کا رویہ دکھاتے۔
یونس خان نے تو خیر بتا دیا کہ اگر انہیں باہر رکھا جاتا تو وہ کیا کرتے، جس کی وجہ سے فواد عالم کو بھگتنا پڑا۔ اگر فواد عالم انڈیا میں پیدا ہوئے ہوتے، تو شاید اب تک سپر اسٹار بن گئے ہوتے۔ یا شاید انہیں بھی عمران طاہر کی طرح کسی دوسرے ملک میں اپنا حق تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پاکستان میں بلاشبہ ٹیلنٹ موجود ہے، لیکن ان کی تلاش کے سسٹم کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسا سسٹم جہاں یاسر شاہ اور سعید اجمل جیسے ورلڈ کلاس باؤلروں کا ٹیلنٹ کافی پہلے پہچان لیا جائے۔ خاص طور پر یاسر شاہ کو تو 28 سال کی عمر سے بھی پہلے پاکستان کے لیے کھیلنا چاہیے تھا۔
اور باقی کے ٹورنامنٹ کی بات کی جائے تو میں خوشی سے انڈیا کی سپورٹ کر رہا ہوں کیونکہ پڑوسی ملک کے فینز نے پچھلے پورے ماہ کے دوران پاکستان کی بہترین سپورٹ کی ہے۔
جب پاکستانی قوم بالکل ہمت ہار چکی تھی، تو اس وقت انڈین فین نیوز ویب سائٹس، فیس بک، اور ٹوئٹر پر مثبت کمنٹس کے ذریعے ہمارے حوصلے بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ ان سب مثبت تبصروں کے بعد میں بھی ان کے لیے مثبت ہی سوچ رکھتا ہوں، اور اگر پاکستان نہیں جیت سکا، تو انڈیا ہی سہی۔
دھونی اور ان کی ٹیم کے لیے گڈ لک، اور پاکستان کے لیے گڈ لک صرف تب جب وہ اس ٹورنامنٹ سے کچھ سیکھیں۔

0 comments: