Google_plus Pinterest Vimeo RSS

سوات کے درخت تحفظ چاہتے ہیں


آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگلات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے جنگلات کی اہمیت کے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا میں پہلی بار جنگلات کا عالمی دن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کہنے پر 21 مارچ 2013 کو منایا گیا اور دنیا بھر میں قدرت سے محبت کرنے والے لوگوں اور ماہرین نے اس کاوش کو سراہا۔
دنیا بھر میں جنگلات کے عالمی دن کے موقع پر مختلف تنظیموں کی طرف سے سیمینارز اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں ماہرین اور مبصرین جنگلات کی اہمیت اور افادیت بیان کرتے ہیں اور اسی طرح جنگلات کے عالمی دن کے موقع پر لاکھوں نئے درخت بھی لگائے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ حکومتوں اور انتظامیہ سے بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے اقدامات کے مطالبے کیے جاتے ہیں۔
یہ سب تو تھیں دنیا کی باتیں۔ اب آتے ہیں وطنِ عزیز پاکستان کی جانب۔ پاکستان اپنے جنگلات کے وجہ سے دنیا میں اہمیت کا حامل ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں قدرتی وسائل کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے فارسٹرز کو بھی جنگلات کے عالمی دن کے بارے میں علم نہیں ہے۔
دیکھا جائے تو باقی دنیا میں لوگ درخت صرف اور صرف چند ایک مقاصد کے لیے کاٹتے ہیں، اور ان کی جگہ فوراً نئے درخت بھی اُگاتے ہیں تاکہ قدرتی سبزہ مکمل طور پر ختم نہ ہوجائے۔ مگر پاکستان میں، خاص کر ہمارے علاقے سوات کوہستان میں، نایاب درختوں کی کٹائی نہ صرف مقامی طور پر ایندھن کے لیے، بلکہ پیسے کمانے کے لیے بھی کی جاتی ہے اور یہ کام زیادہ تر علاقے کے بااثر لوگ ہی کرتے رہتے ہیں۔
ٹمبر مافیا ہر سال کروڑوں روپے مالیت کے درخت کاٹ کر اس سے اربوں روپے کا منافع حاصل کرتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں کا قدرتی حسن متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں موجود صدیوں پرانے درخت پیسے کی ہوس میں کاٹے جا چکے ہیں، جبکہ مزید کی کٹائی بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ٹمبر مافیا کے اس مذموم دھندے میں مقامی انتظامیہ کے بھی کچھ حلقے ملوث ہیں جو نہ کٹائی روکتے ہیں، اور نہ ہی لکڑی کی علاقے سے باہر اسمگلنگ۔ نتیجہ یہ ہے کہ درختوں کے کٹنے کی وجہ سے یہاں پائے جانے والے انواع و اقسام کے جانور بھی بے گھر ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن ہمارے پہاڑی اور سرد علاقوں میں قیمتی درختوں کی دشمن نہ صرف ٹمبر مافیا ہے، بلکہ سردیوں میں یہاں کے لوگ ہر سال ہزاروں قیمتی درختوں کو کاٹ کر جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے جب ان علاقوں میں سردیوں کے دوران گیس اور بجلی نہیں ہوتی، تو پھر یہاں کے لوگوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے لکڑیاں جلانے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ سردیوں کے موسم میں اگر آپ کالام یا اس سے اگے کے علاقوں میں جائیں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہاں کس رفتار سے درخت کاٹے جاتے ہیں کیونکہ سردیاں گزارنے کے لیے ہر گھر کو کم ازکم ایک ٹرک لکڑی درکار ہوتی ہیں۔
اور اسی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے درخت کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ہمارے علاقوں میں اسی طرح جلانے کی لکڑی کے لیے درختوں کی کٹائی جاری رہی تو کچھ ہی سالوں میں ہم درخت کے نام سے ہی ناواقف ہوجائیں گے۔
ابھی PTI حکومت نے قدرتی وسائل کو ضائع ہونے سے بچنے کے لیے کافی تیزی سے کام شروع کیا ہے، جس میں ٹمبر مافیا کے خلاف اعلانِ جنگ اور گرین خیبر پختونخواہ مہم شامل ہیں جس کے تحت لاکھوں درخت لگانے کا عزم کیا گیا ہے۔ یہ امید کی ایک کرن ہے کیونکہ اس طرح کاٹے جانے والے درختوں کا متبادل میسر ہو گا۔ ان دنوں ہر جگہ آپ کو لوگ شجرکاری کرتے ہوئے نظر آئیں گے جو کہ ایک مثبت سوچ ہے اور ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن حکومت نے تو اپنی نیک نیتی دکھائی اور مفت پودے مہیا کیے، پر اب سب سے بڑا مسئلہ ان پودوں کی دیکھ بھال ہے۔ اگر ان نئے درختوں کی حفاظت نہیں کی گئی، تو یہ قوم اور ملک کے لیے انتہائی شرم کی بات ہوگی کیونکہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی صفر نتیجہ مہذب ممالک میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
ہم پاکستانی عوام اکثر سارا الزام حکومت کے اوپر ڈالتے ہیں اور ہر چیز کا ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہراتے ہیں۔
ذرا سوچیے۔ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ اپنے علاقے اور گھر کے ارد گرد لگائے گئے درختوں کی حفاظت ہم خود کریں؟ یا اس کے لیے بھی ہمیں توقع ہے کہ حکومت ہر درخت کے ساتھ ایک چوکیدار کھڑا کر دے؟ جب ہم اپنے گارڈن، اپنی دیوار، اپنی گلی کی حفاظت اپنے ذمے لے سکتے ہیں، تو درختوں کی طرف اتنی لاپرواہی کیوں ہے؟ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگوں کو قیمتی درخت کاٹنے سے روکیں؟ کیا لوگوں میں آگاہی مہم چلانا ہم جیسے دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ہم عوام ہی ہیں جو اس ملک کو قدرتی وسائل سے مالامال کر سکتے ہیں۔
آئیے جنگلات کے اس عالمی دن کے موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی طرف سے جتنا ہو سکے، جنگلات اور دوسرے قدرتی وسائل کی حفاظت کو اپنا مقصد بنائیں۔
میری خیبر پختونخواہ اور وفاقی حکومت سے اپیل ہے کہ ان علاقوں میں سارا سال اور خصوصاً سردیوں میں بجلی اور گیس کی سہولت کو یقینی بنائیں تاکہ لوگ لکڑی جلانے کے بجائے ہیٹر کا استعمال کریں۔ تمام پہاڑی علاقوں میں وافر مقدار میں پانی کے ذرائع موجود ہیں اور وہ صرف ضائع ہی ہورہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان آبی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ان سے بجلی پیدا کی جائے۔ اس طرح یہ ہوگا کہ جو درخت ابھی صرف ایندھن کے لیے کاٹے جارہے ہیں، ان کی کٹائی بند ہوگی، جبکہ جو نئے درخت لگائے جا رہے ہیں، وہ صوبے میں سبزہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
سوئٹزرلینڈ کو زمین پر جنت اس کے خوبصورت پہاڑی علاقوں اور سبزے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا پاکستان میں یہ چیزیں موجود نہیں؟
بالکل موجود ہیں۔ لیکن ان دونوں جگہوں میں ایک فرق ہے۔ وہاں خوبصورتی کا تحفظ کر کے زرِ مبادلہ بنایا جاتا ہے، جبکہ یہاں تھوڑے سے داموں کے عوض خوبصورتی تباہ کر دی جاتی ہے۔
سوات اور سوئٹزرلینڈ میں وسائل ایک جیسے ہیں لیکن فرق صرف سوچ کا ہے۔ کیا ہم اپنی سوچ تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں؟
درست اقدامات اٹھائے گئے ہیں، پر ابھی بہت کام باقی ہے۔

0 comments: