Google_plus Pinterest Vimeo RSS

سرفراز نے دھوکہ نہیں دیا! لیکن؟


'اچھا تو کیا سرفراز احمد کا اوپنر کی حیثیت سے بھی انتخاب کیا گیا ہے؟'
جی ہاں یہ جملہ کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارے قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس کا ہے جو انہوں نے متحدہ عرب امارات کے خلاف میچ کے بعد ایک صحافی کے استفسار پر پریس کانفرنس میں ادا کیا۔
یہ سوال اس وقت کیا گیا تھا جب ’باصلاحیت اوپنر‘ ناصر جمشید تین میچوں میں صرف پانچ رنز بنا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ کیچ ڈراپ کرنے کا بھی شرف حاصل کیا۔ وکٹ کیپنگ کے شعبے میں عمر اکمل نے بھی اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے کیچز چھوڑنے کا سلسلہ بخوبی برقرار رکھا اور ان کی اس کرم فرمائی کا سب سے زیادہ نشانہ آل راؤنڈر شاہد آفریدی بنے۔
یہ سلسلہ اس حد تک چلا گیا کہ شاہد آفریدی کو خود یہ الفاظ ادا کرنے پڑے کہ ’میں عمر اکمل سے درخواست کرتا ہوں کہ میری 400 وکٹیں مکمل کرا دیں۔‘
صرف یہی نہیں بلکہ جب سابق کھلاڑیوں نے سرفراز کو نہ کھلانے پر تنقید کی تو ٹیم کی کارکردگی سے پریشان کپتان مصباح الحق بھی کہہ بیٹھے کہ ’کیا عرفان سے اوپننگ کروا لیں؟‘
جی نہیں مصباح! عرفان سے نہیں آپ کو سرفراز سے اوپننگ کروانی چاہیے تھی۔ یہ بات ماننے اور کہنے سے آپ اور آپ کے کوچ کیوں کترا رہے ہیں، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
49 رنز اور چھ کیچ، اپنی کارکردگی سے شاید اس سے بہتر جواب کوئی کھلاڑی دے ہی نہیں سکتا۔ سرفراز سے اچھی کارکردگی کی امید تو سب ہی کو تھی لیکن جو انہوں نے کر دکھایا وہ یقیناً قابل تحسین ہے۔
دنیا کے مضبوط ترین حریف کے خلاف ایک ایسے میچ میں جس میں پاکستان کو لازمی فتح درکار تھی، اس وکٹ کیپر بلے باز نے اپنے دونوں کرداروں سے بخوبی انصاف کرتے ہوئے بلا شک و شبہ پاکستان کو جیت کی راہ پر گامزن کیا۔
گذشتہ میچوں کے برعکس اس میچ کے آغاز سے ہی ٹیم کی باڈی لینگویج دیکھ کر یہ صاف ظاہر تھا کہ آج یہ کچھ مختلف کرنے والے ہیں اور یہ سرفراز ہی تھے جنہوں نے اس جیت کی بنیاد ڈالی۔
اور پھر وکٹ کیپنگ میں جہاں تمام ہی پاکستانی شائقین دو سے تین کیچ ڈراپ ہوتے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، سرفراز نے ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے چھ کیچ پکڑ کر تمام ہی ناقدین کا منہ بند کردیا۔
خصوصاً ہاشم آملا کا شاندار کیچ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جس نے نہ صرف جنوبی افریقا کی ٹیم پر کاری وار کا کام کیا، بلکہ دیکھنے والوں کے ذہنوں میں ایک بار پھر ماضی کے عظیم پاکستانی وکٹ کیپروں وسیم باری اور راشد لطیف کے شاندار کارناموں کی یاد تازہ کردی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کس بنیاد پر سرفراز کو اب تک بقیہ میچوں سے باہر بٹھایا گیا جبکہ ناصر جمشید مسلسل ناکامی کا شکار تھے اور عمر اکمل بھی وکٹ کے پیچھے مسلسل غلطیاں کر رہے تھے، اور اسی دباؤ کی وجہ سے یقیناً بیٹنگ میں بھی ان کی کارکردگی متاثر ہوتی رہی ہے۔
ساری قوم کہتی رہی کہ ’سرفراز دھوکہ نہیں دے گا‘ لیکن کوچ اور کپتان نہ مانے لیکن پھر سرفراز نے خود ہی میدان میں آ کر اپنے بھرپور فارم میں ہونے کا ثبوت دیا۔
سرفراز کی اننگ نے نہ صرف پاکستان کی جیت کی بنیاد رکھی بلکہ ساتھ ساتھ اس میں ایک ایسی چیز کی جھلک بھی نظر آئی جو پاکستانی ٹیم میں ایک عرصے سے ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملی۔
وکٹ کیپر بلے باز نے جارحانہ لیکن ذمے دارانہ بلے بازی سے پاکستانی ٹیم کے بلے بازوں کو ایک روزہ کرکٹ کے بدلتے ہوئے انداز سے روسناش کروانے کی کوشش کی اور باور کروایا کہ ہمیں بھی اس روش کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
میچ کا جائزہ لیا جائے تو احمد شہزاد بڑی اننگ کھیلنے کے موڈ میں دکھائی دیتے تھے لیکن ایک شاندار کیچ نے ان کی اننگ کا اختتام کیا۔ اس موقع پر سرفراز نے جس طرح دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کو آڑے ہاتھوں لیا اس نے جنوبی افریقی کپتان سمیت تمام ہی کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں پھلا دیے۔
یونس اور مصباح کے علاوہ بقیہ ’باصلاحیت‘ نوجوانوں سے قوم ایک بار پھر بڑی اننگ کی توقع کرتی رہ گئی اور جہاں ایک موقع پر بڑا اسکور نظر آ رہا تھا، بلے بازوں کی غیر ذمہ داری کے باعث گرین شرٹس صرف 222 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئے۔
وہ تو بھلا ہو بارش کا کہ جنوبی افریقہ کو میچ جیتنے کے لیے 232 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف ملا۔
عرفان نے ایک بار پھر پاکستان کو پہلی وکٹ دلا کر فتح کی امید دلائی اور پھر راحت علی اور وہاب ریاض نے سرفراز کی مدد سے اپنے اپنے کام سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے ورلڈ کپ فیورٹ کو 202 رنز پر ٹھکانے لگا کر پاکستان کو شاندار فتح سے ہمکنار کروا دیا۔
جہاں یہ جیت ٹیم کو کئی خوشیاں دے گئی وہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر قومی ٹیم کی کمزوریوں کا پردہ بھی فاش ہو گیا۔ اوپننگ کا مسئلہ تو کسی حد تک حل ہو گیا لیکن عمر اکمل اور صہیب مقصود کی مسلسل غیر ذمے داری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ دونوں کھلاڑی کس موقع پر اپنی صلاحیتوں کا جلوہ دکھائیں گے؟
گذشتہ میچوں کی طرح اس میچ میں بھی دونوں ہی کھلاڑی وکٹ پر سیٹ ہوتے ہی اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ آخر ان دونوں کھلاڑیوں میں چھپا ہوا ٹیلنٹ کب سامنے آئے گا؟
ایک ایسے ورلڈ کپ میں جہاں ہر ٹیم 300 سے 400 رنز اسکور کر رہی ہے، کیا ہم ہر میچ میں محض 200 سے 250 رنز بنانے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اور کیا ہر دفعہ ہماری باؤلنگ لائن کم ٹوٹل کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟
یہ کامیابی تو ہم نے فاسٹ باؤلرز کی شاندار کارکردگی کی بدولت حاصل کر لی لیکن بیٹسمینوں کو ہر میچ میں باؤلنگ پر مکمل انحصار کر کے پویلین نہیں لوٹ جانا چاہیے۔ ہر دفعہ باؤلنگ کا جادو نہیں چل سکتا اس لیے اب بلے بازوں کو بھی آگے آ کر اپنا فرض نبھانا ہو گا۔
فیلڈنگ میں نقائص ایک بار پھر کھل کر سامنے آئے اور ورلڈ کپ میں آگے بڑھنا ہے تو اس اہم شعبے میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔
باقی رہی بات کہ سرفراز کو کیوں نہیں کھلایا گیا، تو اس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے وقار یونس کسی بات پر سرفراز سے ناراض ہوں۔ لیکن پھر بھی انہیں اس بات کا حق نہیں کہ وہ اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر کسی کھلاڑی کو اس کے حق سے محروم کریں۔
جناب یہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہے اور یہاں ملکی وقار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ذاتی پسند ناپسند سے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہر اس کھلاڑی کو موقع دیا جانا چاہیے جو کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ پھر چاہے کچھ بھی ہو۔
یہ جیت پاکستان کے ورلڈ کپ میں کم بیک کے لیے ضروری تھی، اور ہم نے حاصل کر لی۔ لیکن ابھی آگے کئی معرکے باقی ہیں اور اس میچ میں ہم نے جو جو غلطیاں کی ہیں، انہیں اب کم ترین وقت میں درست کرنا ہوگا۔ ہمارے کوچ اور کپتان کو اپنے کمزور اور مضبوط پہلوؤں کو جاننا ہو گا ورنہ کوئی شک نہ رہے کہ ورلڈ کپ جیتنے کا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا۔

0 comments: