Google_plus Pinterest Vimeo RSS

وہ دکان جو ہر ایک کے لیے نہیں؟

اسلام آباد : یہ پارلیمنٹ میں ایک اہم دن تھا، تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نو ماہ کے وقفے کے بعد ایوان میں واپس آئے تھے جبکہ مشترکہ اجلاس میں یمن کے تنازع پر گرما گرم بحث دیکھنے میں آئی۔
مگر اس وقت جب صبح کے سیشن میں پارلیمنٹرین ہلکے پھلکے جملوں کا تبادلہ کررہے تھے، پی پی پی کی ایم این اے شازیہ مری قومی اسمبلی کی لابی میں واقع سوونیر شاپ کے کلرک سے بھاؤ تاؤ میں مصروف تھیں۔
دکان میں رکھی اشیاءکو دیکھتے ہوئے شازیہ مری نے کہا " یہ پہلی بار ہے کہ میں اس دکان میں داخل ہوئی ہوں، اگرچہ یہاں موجود اشیاءکو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی مگر مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اس کو مزید بہتر بنایا جانا چاہئے تھا"۔
بھاری سیکیورٹی اور لاتعداد رکاوٹوں کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت یا اس سوونیر شاپ کو دیکھنے کے لیے عام لوگوں کی آمد کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔
اس دکان کے کلرک نے شازیہ مری کے جانے کے بعد کہا " ہمارے بیشتر صارفین پارلیمنٹ کا دورہ کرنے والے غیرملکی مہمان، اراکین اسمبلی یا ان کے جاننے والے ہوتے ہیں"۔
کلرک نے مزید کہا " کوئی بھی اشیاءپر لگی قیمتوں کو ادا کرتے ہوئے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے، یہ سب ہمیشہ ہی مول تول کرتے ہیں، کئی بار تو میں انہیں سپر مارکیٹ (سیکٹر ایف سکس میں) لے جانے کی پیشکش کرتا ہوں اور چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ یہی اشیاءکم قیمت پر خرید سکیں تو وہ ہم سے یہ مفت لے جائیں"۔
کلرک کے بقول " مگر کوئی بھی کبھی اس پر تیار نہیں ہوا ، مگر چونکہ وہ سب بڑی شخصیات ہوتے ہیں تو اس سے میں زیادہ بحث کیسے کرسکتا ہوں"۔
یہ دکان پارلیمنٹ سیکرٹریٹ کے زیرتحت چلائی جارہی ہے اور کاؤنٹر پر موجود کلرک سرکاری ملازم ہے، اس کی ذمہ داری اسٹاک کے لیے اشیاءکا انتخاب کرنا ہے جو اس کے بقول کوئی آسان کام نہیں کیونکہ اس دکان کو نہ صرف ایوان کے اراکین بلکہ ان عوام کی بھی عکاسی کرنی ہے جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
شازیہ مری نے دکان سے کف لنکس کا ایک ڈبہ پسند کیا تھا جن پر پارلیمنٹ کی عمارت پرنٹ تھی۔
ان کا کہنا تھا " پرنٹنگ کا معیار بہت ناقص ہے اور تخلیقی سوچ کی کمی بھی نظر آتی ہے، اس ڈبے کو دیکھیں اس میں بہت کرنے کی گنجائش ہے، ہمارے ملک کے دستکار دنیا میں سب سے بہترین ہیں مگر اس دکان میں اس کی عکاسی نہیں ہوتی"۔
شازیہ مری کے جانے کے بعد کلرک نے کہا " مجھے دکان کے بارے میں مادام کے الفاظ سے بہت تکلیف ہوئی ہے"۔

0 comments: