Google_plus Pinterest Vimeo RSS

میری تمام گڑیائیں وہاں فروخت ہوگئیں


اسلام آباد : تمام تر مشکلات پر قابو پاتے ہوئے 53 سالہ فوزیہ ناہید ہاتھوں سے تیار کردہ پتلیاں اور گڑیاﺅں کا چھوٹا سا بزنس چلارہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر مضبوط عزم اور قوت ارادی ہو تو کوئی بھی چیز خواتین کو ان کے مقاصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔
دو دہائیوں قبل اپنے شوہر کے انتقال کے بعد فوزیہ کے سر پر اپنی بیٹی امبرین فاطمہ کی پرورش کی ذمہ داری آپڑی تھی جو کہ اس وقت صرف دو سال کی تھی تاہم اس باہمت خاتون کی اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ گڑیائیں انہیں راولپنڈی کی گلیوں سے لندن تک لے گئی جہاں ان کے بنائے آرٹ کو سراہا گیا۔
راولپنڈی کی رہائشی فوزیہ جو اپنا کاروبار اپنی بیٹی کی مددسے چلا رہی ہیں، نے اسلام آباد ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی ڈبلیو سی سی آئی) کے زیرتحت ہونے والی اسلام آباد ایکسپو 2015 کے دوران ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا " میرے شوہر کے انتقال کے بعد میرے سسرال والوں نے مجھے اپنانے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد میں بہت پریشان تھی کیونکہ میرے پاس تو اپنی بیٹی تک کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں تھا"۔
وہ مزید بتاتی ہیں " تاہم کسی نہ کسی طرح میں نے ڈھائی سو روپے کا انتظام کیا اور لنڈا بازار سے پرانی جیکٹیں خرید کر گڑیائیں، پتلیاں اور کھلونے بنانا شروع کردیئے تاکہ اپنی بیٹی کے لیے خوراک کا انتظام کرسکوں"۔
اپنے مضبوط عزم کی بدولت ان کا کاروبار تیزی سے پھیلنے لگا اور 2007 میں انہیں برطانیہ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی نمائش میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا " وہ ایک زبردست تجربہ تھا، میں راولپنڈی کی تنگ گلیوں میں اپنی ڈولز فروخت کرتی تھی مگر اچانک ہی مجھے اپنی مصنوعات لندن میں بیچنے کا موقع ملا"۔
ماضی کو یاد کرتے ہوئے وہ رونا شروع ہوگئیں " مجھے اب بھی یاد ہے کہ راولپنڈی کی گلیوں میں گڑیاﺅں کا بیگ اور امبرین کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلنا میرے لیے کتنا مشکل ہوتا تھا"۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ شوہر کی موت کے بعد انہیں سسرال والوں نے والدین کے گھر جانے پر مجبور کردیا تھا اور وہاں بھی انہیں متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
فوزیہ کی بیٹی امبرین جو اب 23 سال کی ہوچکی ہے اور اپنی والدہ کے کاروبار میں ان کی معاونت کرتی ہے، نے بتایا " میرے والد کے انتقال کے بعد ہم نے بہت مشکل وقت دیکھا مگر اپنے رشتے داروں پر انحصار کرنے کی بجائے میری والدہ نے پتلیاں اور گڑیائیں تیار کرکے گھر کو چلایا"۔
اس کا کہنا تھا کہ مالی مشکلات کے باوجود فوزیہ نے اس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی " اب میں بی اے کے امتحانات کی تیاری کررہی ہوں"۔
امبرین نے 2013 میں برطانوی شہر مانچسٹر میں ہونے والی ایک نمائش میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔
آئی ڈبلیو سی سی کی بانی صدر ثمینہ فضیل کا کہنا ہے " یہ دونوں ہنرمند ماں بیٹی روایتی گڑیا کی تیاری کے فن میں مکمل مہارت رکھتی ہیں، ان کے تیار کردہ متعد کھلونوں نے ایکسپو میں آنے والے افراد خاص طور پر سفارتکاروں کو مسحور کرکے رکھ دیا"۔
ثمینہ فضیل نے فوزیہ ناہید کو اسلام آباد ایکسپو میں مفت اسٹال لگانے میں مدد فراہم کی تھی " فوزیہ اپنی گڑیاﺅں کی تیاری میں سندھی، بلوچی، پشتون اور پنجابی دلہن و دولہوں کے روایتی ملبوسات کو بھی استعمال کرتی ہیں، درحقیقت وہ ملکی ثقافت کو بھی فروغ دے رہی ہیں"۔
لندن میں بین الاقوامی نمائش میں شرکت کے تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے فوزیہ نے کہا کہ وہاں ان کے کام کی بہت زیادہ مانگ ہے " میری تمام گڑیائیں وہاں فروخت ہوگئیں"۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ان کی مدد کی اور ان کے کام کو سراہا " ہاتھوں سے گڑیاﺅں کی تیاری کافی محنت طلب کام ہے، مجھے ایک گڑیا کی تیاری میں دو دن لگتے ہیں جس سے ایک ہزار روپے کی آمدنی ہوتی ہے، اگر حکومت کی جانب سے مجھے مشینیں یا مالی معاونت فراہم کی جائے تو میں اپنے کاروبار کو مزید فروغ دے سکتی ہوں"۔
انہوں نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) سے بھی مطالبہ کیا کہ اسلام آباد میں اپنا کاروبار چلانے کے لیے انہیں کوئی جگہ الاٹ کی جائے۔

0 comments: