Google_plus Pinterest Vimeo RSS

مذہبی امور کی وزارت قائداعظم کی کابینہ کا حصہ نہیں تھی


اسلام آباد: معروف ادبی شخصیت فتح محمد ملک کا کہنا ہے کہ ’’مذہبی امور کی وزارت قائداعظم کی کابینہ کا حصہ نہیں تھی۔ یہ وزارت ذوالفقار علی بھٹو نے تخلیق کی، جنہوں نے مذہبی علماء سے نمٹنے کے لیے اس وزارت کا قلمدان مولانا کوثر نیازی کے سپرد کیا۔‘‘
وہ شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کی 77 ویں برسی کے موقع پر پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز (پی اے ایل) کے زیراہتمام منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی علماء نے اسلام کے نام پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی، اور اب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ (مذہبی علماء) علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کا پاکستان نہیں چاہتے۔‘‘
پروفیسر فتح محمدملک نے کہا کہ مذہبی علماء نے خلیج سے مراعات وصول کی ہیں، اب وہ حرمین شریفین (سعودی عرب کے مقدس مقامات) کے تحفظ کے لیے لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ’’حرمین شریفین کے تحفظ کی آڑ میں ان کا حقیقی عزم سعودی عرب کی بادشاہت کا تحفظ کرناہے، جس کے لیے وہ آواز اُٹھا رہے ہیں۔ ان مذہبی علماء کو ملک کے مفادات کی پروا نہیں ہے۔‘‘
پروفیسر فتح محمد ملک نے حاضرین کو یاد دلایا کہ 1947ء میں جب قائداعظم نے زرعی اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، تو اس وقت 100 مذہبی علماء نے زرعی اصلاحات کے خلاف فتووں میں اس کو ’حرام‘ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے نظریہ پاکستان کا فلسفہ پیش کیا، لہٰذا وہ بھی قائداعظم کے ساتھ ملک کے بانی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اقبال کا فلسفہ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کا موضوع ہے، اور اس طرح ان کے تصورات کی عظیم تر تفہیم کے لیے کردار ادا کیا جارہا ہے۔‘‘
انہوں نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ ایران کے ایک سابق صدر نے اقبال کو ’ایران کا شاعر‘ قرار دیا تھا، اس لیے کہ ان کے تصورات پر ایران میں اچھی طرح عملدرآمدکیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نے اس موقع پر علامہ اقبال پر ایک مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ایسے لوگوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے، جو اس کی ثقافت اور نظریے کا اغوا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا ’’عربوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بہت سے رسم و رواج ترک نہیں کیے۔ تاہم اس خطے کی پانچ ہزار برس قدیم ثقافت سے پاکستانیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نے کہا کہ اقبال کو اس لیے ’کافر‘ قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے لوگوں کے حقوق اور خودمختاری کی بات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت کے مذہبی علماء نے اقبال کا بائیکاٹ کیا تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان وجود میں آگیا تو اس کے ’اسلام کا قلعہ‘ ہونے کا اعلان کردیا گیا۔
انہوں نے کہا ’’ہمیں یہ لازمی طور پر سمجھنا ہوگا کہ قلعوں میں صرف جنگیں لڑی جاتی ہیں، اور پُرامن معاشرے خود کو قلعہ بند نہیں کرتے۔‘‘
ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نے خطے کی قبل از اسلام ثقافت کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا اور حاضرین کو یاد دلایا کہ ایران کی طرح بہت سی مسلم اقوام اپنی قبل از اسلام کی بنیادوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1990ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق اقبال کے حقیقی نظریے اور فلسفے پر کسی بھی نصابی کتاب میں بات نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین قاسم بوگیو نے کہا کہ اقبال کی شاعری کو پاکستان اور ایران دونوں جگہ سراہا گیا ہے، جو ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔

0 comments: