انوکھا کیفے جو ایک جہاز میں قائم ہے‘ خوبصورت شنگریلا کی کہانی
ذیشان مہدی۔۔۔۔۔
سکردو کے موسم میں تیزی سے تبدیلی آرہی تھی ، گو کہ کچھ سخت جان قسم کے پھول ابھی تک پوری طرح مرجھائے نہیں تھے مگر درختوں کے پتوں کے رنگ اُڑنے لگے تھے اور کہیں کہیں صبح کے وقت درختوں سے رنگ برنگے پتے گرنے کا نظارا کیا جا سکتا تھا۔ 13اکتوبر 1954ء کی صبح کا آغاز ہوا تو لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا کہ آج موسم صاف ہے اور دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ عام لوگوں کی نسبت وہ لوگ زیادہ خوش تھے جنہوں نے آج سکردو سے ہوائی جہاز کے ذریعے راولپنڈی جانا تھا۔ سکردو کے کچی مٹی سے بنے ائرپورٹ سے سہگل گروپ (Orient Skyliner)کا طیارہDC-3 اسلام آباد کیلئے پرواز کرنے والا تھا ، اس جہاز نے 1950ء سے سکردو آنا شروع کیا تھا۔ طیارے میں کاروباری مقاصد کے علاوہ عمرہ اور زیارات کیلئے جانے والے لوگ سوار تھے۔ جہاز نے کچے رن وے پر دوڑنا شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے پورا ایریا گرد سے اَٹ گیا، سول ایوی ایشن کے ایک کمرے پر مشتمل آفس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے دھول سے بچنے کیلئے کھڑکیاں بند کر لیں،کچھ ہی دیر میں جہاز اُڑتی دھول کے بادلوں میں گھم ہو گیا، مگر وہ مطمئن تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اس ائرپورٹ سے جہاز ایسے ہی پرواز بھرتا ہے۔ تھوڑی دیر میں جہاز ہوا میں بلند ہو گیا لیکن اُڑتی ہوئی دھول کافی دیر تک فضا میں موجود رہی پھر آہستہ آہستہ بیٹھنے لگی۔ سول ایوی ایشن کے ملازمین اور ائرپورٹ کے دیگر عملہ نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیا تاکہ دفتر بند کر کے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ انہیں اس بات کی کوئی خبر نہ تھی کہ زمین سے اُڑنے کے بعد جہاز کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے۔ ادھر فضا میں اُڑتے ہی پائلٹ کو کسی قسم کی گڑ بڑ کا احساس ہوا اس نے ساتھی پائلٹ کو مسئلہ سے آگاہ کیا اور پھرانہوں نے ایمرجنسی لینڈنگ کا فیصلہ کرلیا۔ جہاز کی بائیں طرف کا انجن فیل ہو چکاتھا لہٰذا وہ اسلام آباد تک پرواز نہیں کر سکتا تھا،پائلٹ نے جہاز کا رُخ تو موڑ لیا مگر اب ان کے لئے دوسری مشکل کا سامنا تھا کہ وہ واپس سکردو ائرپورٹ تک بھی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ جہاز کو ہوا میں بلند ہوئے صرف تین منٹ گزرے تھے ، اتنے کم وقت میں جہاز زیادہ بلندی پر نہ جا سکا تھا۔ کپتان نے فیصلہ سنا دیا کہ جہاز کو دریائے سندھ کے بیچوں بیچ ریتلی زمین پر اتار دیا جائے، چنانچہ اسی فیصلے پر عمل کیا گیا۔ جہاز ڈھولتے ڈھولتے نرم زمین پر اتر گیا ، عملہ اور مسافر خیریت سے تھے۔ نیچے اُترتے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم اتنی جلدی راولپنڈی پہنچ گئے، وہ لوگ اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب جہاز سے باہر آتے ہوئے اپنے ہی علاقے کی طرح کا منظر دیکھا۔ کسی نے ہمت کر کے کپتان سے پوچھا کہ کیا ہم اسلام آباد پہنچ چکے ہیں؟، کپتان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ہاں پہنچ گئے ہیں۔ لوگوں پر جب یہ حقیقت کھلی کہ جہاز حادثے کا شکار ہو گیا ہے تب وہ شکر بجا لانے لگے کہ اللہ نے ان کی جان بچالی ہے۔
شنگریلا موٹل کی سیر کرنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ سبزہ زار پر ایک جہاز اُترا ہوا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ جہاز غلطی سے یہاں اُتر گیا تھا اور شرارتی بچوں نے پکڑ کر اس کے پر کاٹ دئیے۔یہ وہی ڈی سی تھری طیارہ ہے جس کی ایمرجنسی لینڈنگ کی گئی تھی۔دریائے سندھ کی ریتلی زمین میں دھنسا ہوا اورین ائرویز کا یہ طیارہ تقریباً دو سال تک یہیں پڑا رہا، کسی نے اس کو کام میں لانے کا نہ سوچا۔ ایک آرمی آفیسر بریگیڈئر اسلم خان(ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی) نے کسی انجانے خیال کے تحت سول ایوی ایشن سے رابطہ کیا اور ان سے جہاز بیچنے کی زبانی درخواست کی، جواب دیا گیا کہ یہ سرکاری مال ہے ایسے نہیں بیچا جا سکتا، پھر اسلم خان نے تحریری درخواست دی جس کا جواب قریباً ایک سال بعد دیا گیا ، اس جواب میں یہ کہا گیا تھا کہ جہاز کی قیمت پانچ سو روپے ادا کر کے لے جایا جا سکتا ہے۔ اسلم خان نے ان کے ساتھ لین دین شروع کر دی اور کہاکہ یہ بیکار پڑی ہوئی چیز ہے، سرکار کے کسی کام نہیں آسکتی، کچھ عرصہ بعد یہ پانی میں ڈوب جائے گا۔ لہٰذا 50روپے میں مجھے بیچا جائے۔ ادارہ اور اسلم خان میں بارگیننگ چلتی رہی اور پھر بیچ کا راستہ نکال لیا گیا، مبلغ 150روپے میں جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر جہاز اسلم خان کو فروخت کر دیا گیا۔
بریگیڈئر اسلم خان نے مقامی لوگوں کی مدد سے جہاز کو یاک، بیلوں، گھوڑوں اور گدھوں سے باھند دیا، ساتھ ساتھ لوگ بھی دھکا دیتے رہے اور کئی دن بعد اسے موجودہ شنگریلا میں پہنچا دیا۔ شنگریلا سکردو سے 32کلو میٹر جبکہ سکردو ائرپورٹ سے 15کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس وقت تک شنگریلا نہیں بنا تھا، اسلم خان نے جہاز کو بیڈ روم بنا دیا، جھیل کنارے جہازی بیڈ روم میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیاں منایا کرتا تھا، جہاز کے اگلے حصے کو ڈرائی روم قرار دیا گیا جبکہ پیچھے واش روم بھی موجود تھا۔ بعد میں اسلم خان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے بھی یہاں آنا شروع کر دیا۔ اسلم خان کی بیوی سوشل سوچ رکھتی تھیں لہٰذا ا انہوں نے علاقے کے لوگوں سے روابط بڑھا دئیے ، وہ انہیں صفائی ستھرائی کے طریقے بتاتی تھیں اور جب بھی آتیں بڑی مقدار میں ادویات ساتھ لے کر آتیں تھیں اس لئے کچورا گاؤں کے لوگ انہیں ڈاکٹر صاحبہ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ غالباً انہی دنوں میں اسلم خان ایک کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جس کو برطانوی ناول نگار و فلم نگار James Hiltonنے 1933ء میں لکھا تھا، کتاب کا نام Lost Horizonہے جس میں 1920ء کے اوائل میں ہائی جیک ہونے والے ایک جہاز کا تذکرہ ہے۔ جہاز کو چائینز ہائی جیکرز نے اغوا کر لیا تھا مگر وہ اسے کہیں لینڈ کرنے کی بجائے ہوا میں ہی گھماتے رہے یہاں تک کہ اس کا ایندھن ختم ہو گیا جس کے بعد ایک ویران جگہ پر دریا کنارے لینڈ کرنا پڑا۔ یہ تبت یا چائینہ کا کوئی علاقہ تھا ، قریبی پہاڑ پر موجود بدھسٹ بھکشوں نے دیکھا کہ ایک بڑا سا پرندہ نیچے وادی میں اُتر گیا ہے، وہ اس بڑے پرندے کو دیکھنے کیلئے وادی میں آئے تو انہوں نے جہاز اور اس میں سوار لوگوں کو دیکھا، وہ ایک دوسرے کی بولی نہیں بول سکتے تھے چنانچہ اشاروں میں بات کرنے لگے، بھکشوں نے انہیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور وہ ساتھ ساتھ پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ پہاڑی کی دوسری طرف خوبصورت آبادی موجود تھی جس میں طرح طرح کے پھل اور پھول لگے ہوئے تھے، یہاں کے لوگوں کی عمریں بہت طویل تھیں مگر خالص چیزیں کھانے کی وجہ سے سب جوان نظر آتے تھے۔ اس جگہ کا نام شنگریلا تھا، چائنیز میں شنگریلا کا مطلب زمین پر جنت ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے پڑھتے بریگیڈئر اسلم خان کے ذہن میں خیال پیدا ہو رہا تھا کہ کیوں نہ اس ناول کو حقیقت کا روپ دیاجائے، کیونکہ ان کے پاس جہاز بھی تھا اور حسین علاقہ بھی۔ 1981ء میں انہوں نے اس پر عملی کام شروع کر دیا، جھیل کنارے پانی میں چائنیز طرز کا ایک ریسٹورنٹ بنایا گیا پھر آہستہ آہستہ مزید تعمیرات کرتے گئے۔دو سال بعد 1983ء میں ابتدائی حصے کا افتتاح کر دیا گیا۔ اس وقت بھی چائنیز طرز کے ریسٹورنٹ کے عقب میں موجود ڈی سی تھری طیارہ اسی شان سے کھڑا تھا۔
شنگریلا موٹل کی سیر کرنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ سبزہ زار پر ایک جہاز اُترا ہوا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ جہاز غلطی سے یہاں اُتر گیا تھا اور شرارتی بچوں نے پکڑ کر اس کے پر کاٹ دئیے۔یہ وہی ڈی سی تھری طیارہ ہے جس کی ایمرجنسی لینڈنگ کی گئی تھی۔دریائے سندھ کی ریتلی زمین میں دھنسا ہوا اورین ائرویز کا یہ طیارہ تقریباً دو سال تک یہیں پڑا رہا، کسی نے اس کو کام میں لانے کا نہ سوچا۔ ایک آرمی آفیسر بریگیڈئر اسلم خان(ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی) نے کسی انجانے خیال کے تحت سول ایوی ایشن سے رابطہ کیا اور ان سے جہاز بیچنے کی زبانی درخواست کی، جواب دیا گیا کہ یہ سرکاری مال ہے ایسے نہیں بیچا جا سکتا، پھر اسلم خان نے تحریری درخواست دی جس کا جواب قریباً ایک سال بعد دیا گیا ، اس جواب میں یہ کہا گیا تھا کہ جہاز کی قیمت پانچ سو روپے ادا کر کے لے جایا جا سکتا ہے۔ اسلم خان نے ان کے ساتھ لین دین شروع کر دی اور کہاکہ یہ بیکار پڑی ہوئی چیز ہے، سرکار کے کسی کام نہیں آسکتی، کچھ عرصہ بعد یہ پانی میں ڈوب جائے گا۔ لہٰذا 50روپے میں مجھے بیچا جائے۔ ادارہ اور اسلم خان میں بارگیننگ چلتی رہی اور پھر بیچ کا راستہ نکال لیا گیا، مبلغ 150روپے میں جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر جہاز اسلم خان کو فروخت کر دیا گیا۔
بریگیڈئر اسلم خان نے مقامی لوگوں کی مدد سے جہاز کو یاک، بیلوں، گھوڑوں اور گدھوں سے باھند دیا، ساتھ ساتھ لوگ بھی دھکا دیتے رہے اور کئی دن بعد اسے موجودہ شنگریلا میں پہنچا دیا۔ شنگریلا سکردو سے 32کلو میٹر جبکہ سکردو ائرپورٹ سے 15کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس وقت تک شنگریلا نہیں بنا تھا، اسلم خان نے جہاز کو بیڈ روم بنا دیا، جھیل کنارے جہازی بیڈ روم میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیاں منایا کرتا تھا، جہاز کے اگلے حصے کو ڈرائی روم قرار دیا گیا جبکہ پیچھے واش روم بھی موجود تھا۔ بعد میں اسلم خان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے بھی یہاں آنا شروع کر دیا۔ اسلم خان کی بیوی سوشل سوچ رکھتی تھیں لہٰذا ا انہوں نے علاقے کے لوگوں سے روابط بڑھا دئیے ، وہ انہیں صفائی ستھرائی کے طریقے بتاتی تھیں اور جب بھی آتیں بڑی مقدار میں ادویات ساتھ لے کر آتیں تھیں اس لئے کچورا گاؤں کے لوگ انہیں ڈاکٹر صاحبہ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ غالباً انہی دنوں میں اسلم خان ایک کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جس کو برطانوی ناول نگار و فلم نگار James Hiltonنے 1933ء میں لکھا تھا، کتاب کا نام Lost Horizonہے جس میں 1920ء کے اوائل میں ہائی جیک ہونے والے ایک جہاز کا تذکرہ ہے۔ جہاز کو چائینز ہائی جیکرز نے اغوا کر لیا تھا مگر وہ اسے کہیں لینڈ کرنے کی بجائے ہوا میں ہی گھماتے رہے یہاں تک کہ اس کا ایندھن ختم ہو گیا جس کے بعد ایک ویران جگہ پر دریا کنارے لینڈ کرنا پڑا۔ یہ تبت یا چائینہ کا کوئی علاقہ تھا ، قریبی پہاڑ پر موجود بدھسٹ بھکشوں نے دیکھا کہ ایک بڑا سا پرندہ نیچے وادی میں اُتر گیا ہے، وہ اس بڑے پرندے کو دیکھنے کیلئے وادی میں آئے تو انہوں نے جہاز اور اس میں سوار لوگوں کو دیکھا، وہ ایک دوسرے کی بولی نہیں بول سکتے تھے چنانچہ اشاروں میں بات کرنے لگے، بھکشوں نے انہیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور وہ ساتھ ساتھ پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ پہاڑی کی دوسری طرف خوبصورت آبادی موجود تھی جس میں طرح طرح کے پھل اور پھول لگے ہوئے تھے، یہاں کے لوگوں کی عمریں بہت طویل تھیں مگر خالص چیزیں کھانے کی وجہ سے سب جوان نظر آتے تھے۔ اس جگہ کا نام شنگریلا تھا، چائنیز میں شنگریلا کا مطلب زمین پر جنت ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے پڑھتے بریگیڈئر اسلم خان کے ذہن میں خیال پیدا ہو رہا تھا کہ کیوں نہ اس ناول کو حقیقت کا روپ دیاجائے، کیونکہ ان کے پاس جہاز بھی تھا اور حسین علاقہ بھی۔ 1981ء میں انہوں نے اس پر عملی کام شروع کر دیا، جھیل کنارے پانی میں چائنیز طرز کا ایک ریسٹورنٹ بنایا گیا پھر آہستہ آہستہ مزید تعمیرات کرتے گئے۔دو سال بعد 1983ء میں ابتدائی حصے کا افتتاح کر دیا گیا۔ اس وقت بھی چائنیز طرز کے ریسٹورنٹ کے عقب میں موجود ڈی سی تھری طیارہ اسی شان سے کھڑا تھا۔
شنگریلا موٹل کی سیر کرنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ سبزہ زار پر ایک جہاز اُترا ہوا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ جہاز غلطی سے یہاں اُتر گیا تھا اور شرارتی بچوں نے پکڑ کر اس کے پر کاٹ دئیے۔یہ وہی ڈی سی تھری طیارہ ہے جس کی ایمرجنسی لینڈنگ کی گئی تھی۔دریائے سندھ کی ریتلی زمین میں دھنسا ہوا اورین ائرویز کا یہ طیارہ تقریباً دو سال تک یہیں پڑا رہا، کسی نے اس کو کام میں لانے کا نہ سوچا۔ ایک آرمی آفیسر بریگیڈئر اسلم خان(ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی) نے کسی انجانے خیال کے تحت سول ایوی ایشن سے رابطہ کیا اور ان سے جہاز بیچنے کی زبانی درخواست کی، جواب دیا گیا کہ یہ سرکاری مال ہے ایسے نہیں بیچا جا سکتا، پھر اسلم خان نے تحریری درخواست دی جس کا جواب قریباً ایک سال بعد دیا گیا ، اس جواب میں یہ کہا گیا تھا کہ جہاز کی قیمت پانچ سو روپے ادا کر کے لے جایا جا سکتا ہے۔ اسلم خان نے ان کے ساتھ لین دین شروع کر دی اور کہاکہ یہ بیکار پڑی ہوئی چیز ہے، سرکار کے کسی کام نہیں آسکتی، کچھ عرصہ بعد یہ پانی میں ڈوب جائے گا۔ لہٰذا 50روپے میں مجھے بیچا جائے۔ ادارہ اور اسلم خان میں بارگیننگ چلتی رہی اور پھر بیچ کا راستہ نکال لیا گیا، مبلغ 150روپے میں جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر جہاز اسلم خان کو فروخت کر دیا گیا
شنگریلا بن گیا مگر اس حقیقی شنگریلا کو دیکھنے کیلئے جیمز ہلٹن زندہ نہ تھے ۔ 1954ء میں ایک طرف سکردو میں ڈی سی
تھری طیارہ گر رہا تھا ، ایک طرف بریگیڈئر اسلم جھیل کنارے بیٹھے خیالوں میں گم تھے، اور ایک طرف جیمز ہلٹن زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے، 20دسمبر 1954ء کو ہلٹن اپنے حسین خوابوں کے ساتھ اس دنیا سے چلا گیا، اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ہزاروں میل دور سکردو میں اس کے ایک حسین خواب کی تکمیل ہو رہی ہے۔
بریگیڈئر اسلم خان کو اس علاقے سے پیار تھا کیونکہ انہوں نے علاقے کو ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کیلئے 1947-48ء میں لڑی گئی جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کرنل پاشا کے فرضی نام سے لڑنے والے اس مجاہد نے دشمن کی نیندیں حرام کر دی تھیں، اسی سبب ان کے والد بریگیڈئر رحمت اللہ خان کو انڈیا میں گرفتار کر لیا تھا، رحمت اللہ اس وقت مہاراجہ کی فوج میں کمانڈر تھا۔ بریگیڈئر اسلم خان کے فرزند عارف اسلم کے مطابق کرنل پاشا اپنی فوج کے ساتھ سری نگر کے قریبی علاقوں تک جا نکلے تھے اور پلان بنا رہے تھے کہ ہماچل پردیش پر حملہ کر دیا جائے مگر اسی دوران انہیں محاذ سے واپس بلا لیا گیا جس کی وجہ سے وہ پلان فیل ہو گیا اور ہمارے مجاہدین کو کافی پیچھے آنا پڑا۔
عارف اسلم خان جوکہ موجودہ شنگریلا کے چیئرمین ہیں ،کا کہنا ہے’’ شنگریلا کے سبزہ زار پر کھڑے جہاز کی حیثیت ایک شو پیس کی رہ گئی تھی مگر ایک دن میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اسے استعمال میں لایا جائے چنانچہ میں نے اس کا نام ’’ڈی سی تھری کیفے ‘‘ رکھ دیا۔ لوگ اس میں فینسی ڈرنگس پینے آیا کرتے تھے مگر یہ سلسلہ زیادہ نہیں چلا، جہاز کو آج بھی کیفے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے مگر اب فینسی ڈرنگس کی بجائے لوگ چائے اور کافی وغیرہ پیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاز اپنے اصل سائز میں ہی موجود ہے، اس کے پر بچوں نے نہیں بلکہ میں نے کاٹے تھے، شروع میں یہ پروں کے ساتھ موجود تھا مگر پروں نے کافی ساری جگہ گھیری ہوئی تھی اس لئے میں نے ان کو الگ کر دیا۔‘‘ ان کے مطابق شنگریلا میں آنے والے لوگ جہاز کی موجودگی سے خوشگوار حیرت محسوس کرتے ہیں، اس کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں،اندر جا کر دیکھتے ہیں اور اس میں سوار ہو کر چائے کافی پیتے ہیں ۔
دنیا کا یہ انوکھا کیفے آج سے 60سال پہلے ہوا میں اُڑتا پھرتا تھا، آج بھی جب شنگریلا کے اوپر سے کوئی جہاز گزرتا ہے تو ڈی سی تھری یہ سوچتا ہو گا کہ لو جی میں بھی اُڑ چلا ….پھر سوچتا ہو گا کہ میں کیسے اُڑ سکتا ہوں، میرے تو پر ہی نہیں ہیں۔ مایوسی کے عالم میں سرجھکا کر ڈی سی تھری اپنی بے بسی پر دو آنسو ضرور بہاتا ہو گا ….ہوا میں اُڑتے پھرنے والے کیلئے 60سال تک ایک ہی جگہ پر پڑے رہنا کتنا مشکل ہے اس کا احساس ہم انسانوں کو نہیں ہو سکتا ، یہ تو کوئی جہاز ہی محسوس کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ محسوس کر سکتا ہو۔ مگر ڈی سی تھری بریگیڈئر اسلم خان کا یقیناًشگر گزار ہو گا جس نے اس کو ریتلی زمین میں دھنسنے سے بچا کر مرکز نگاہ بنا دیا۔
تھری طیارہ گر رہا تھا ، ایک طرف بریگیڈئر اسلم جھیل کنارے بیٹھے خیالوں میں گم تھے، اور ایک طرف جیمز ہلٹن زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے، 20دسمبر 1954ء کو ہلٹن اپنے حسین خوابوں کے ساتھ اس دنیا سے چلا گیا، اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ہزاروں میل دور سکردو میں اس کے ایک حسین خواب کی تکمیل ہو رہی ہے۔
بریگیڈئر اسلم خان کو اس علاقے سے پیار تھا کیونکہ انہوں نے علاقے کو ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کیلئے 1947-48ء میں لڑی گئی جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کرنل پاشا کے فرضی نام سے لڑنے والے اس مجاہد نے دشمن کی نیندیں حرام کر دی تھیں، اسی سبب ان کے والد بریگیڈئر رحمت اللہ خان کو انڈیا میں گرفتار کر لیا تھا، رحمت اللہ اس وقت مہاراجہ کی فوج میں کمانڈر تھا۔ بریگیڈئر اسلم خان کے فرزند عارف اسلم کے مطابق کرنل پاشا اپنی فوج کے ساتھ سری نگر کے قریبی علاقوں تک جا نکلے تھے اور پلان بنا رہے تھے کہ ہماچل پردیش پر حملہ کر دیا جائے مگر اسی دوران انہیں محاذ سے واپس بلا لیا گیا جس کی وجہ سے وہ پلان فیل ہو گیا اور ہمارے مجاہدین کو کافی پیچھے آنا پڑا۔
عارف اسلم خان جوکہ موجودہ شنگریلا کے چیئرمین ہیں ،کا کہنا ہے’’ شنگریلا کے سبزہ زار پر کھڑے جہاز کی حیثیت ایک شو پیس کی رہ گئی تھی مگر ایک دن میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اسے استعمال میں لایا جائے چنانچہ میں نے اس کا نام ’’ڈی سی تھری کیفے ‘‘ رکھ دیا۔ لوگ اس میں فینسی ڈرنگس پینے آیا کرتے تھے مگر یہ سلسلہ زیادہ نہیں چلا، جہاز کو آج بھی کیفے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے مگر اب فینسی ڈرنگس کی بجائے لوگ چائے اور کافی وغیرہ پیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاز اپنے اصل سائز میں ہی موجود ہے، اس کے پر بچوں نے نہیں بلکہ میں نے کاٹے تھے، شروع میں یہ پروں کے ساتھ موجود تھا مگر پروں نے کافی ساری جگہ گھیری ہوئی تھی اس لئے میں نے ان کو الگ کر دیا۔‘‘ ان کے مطابق شنگریلا میں آنے والے لوگ جہاز کی موجودگی سے خوشگوار حیرت محسوس کرتے ہیں، اس کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں،اندر جا کر دیکھتے ہیں اور اس میں سوار ہو کر چائے کافی پیتے ہیں ۔
دنیا کا یہ انوکھا کیفے آج سے 60سال پہلے ہوا میں اُڑتا پھرتا تھا، آج بھی جب شنگریلا کے اوپر سے کوئی جہاز گزرتا ہے تو ڈی سی تھری یہ سوچتا ہو گا کہ لو جی میں بھی اُڑ چلا ….پھر سوچتا ہو گا کہ میں کیسے اُڑ سکتا ہوں، میرے تو پر ہی نہیں ہیں۔ مایوسی کے عالم میں سرجھکا کر ڈی سی تھری اپنی بے بسی پر دو آنسو ضرور بہاتا ہو گا ….ہوا میں اُڑتے پھرنے والے کیلئے 60سال تک ایک ہی جگہ پر پڑے رہنا کتنا مشکل ہے اس کا احساس ہم انسانوں کو نہیں ہو سکتا ، یہ تو کوئی جہاز ہی محسوس کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ محسوس کر سکتا ہو۔ مگر ڈی سی تھری بریگیڈئر اسلم خان کا یقیناًشگر گزار ہو گا جس نے اس کو ریتلی زمین میں دھنسنے سے بچا کر مرکز نگاہ بنا دیا۔
0 comments: