Google_plus Pinterest Vimeo RSS

بھارت میں دلہن کی قیمت گائے سے بھی کم

آٹھ بچوں کی ایک ماں کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی غلاموں جیسی ہے
بھارتی دارالحکومت دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کے آس محمد نے اپنی بیوی کو ایک دلال کے توسط سے تقریباً ساڑھے تین ہزار روپے میں خریدا تھا۔
بھارت میں یہ رقم ایک گائے کی قیمت سے بھی کم ہے لیکن انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔
آس محمد کہتے ہیں: ’یہ بات درست ہے کہ میری بیوی کی قیمت ایک گائے سے بھی کم ہے لیکن اگر میرے بچوں کے لیے دلہن نہیں ملی تو مجھے پھر سے ایسا ہی کرنا پڑے گا۔‘
آٹھ بچوں کی ماں اس خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی غلاموں جیسی ہے: ’جب میں 12 سال کی تھی تب میرے شوہر مجھے یہاں لے آئے تھے۔ وہ مجھے پیٹتے رہے ہیں، لیکن میں کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ میں کہیں نہیں جا سکتی تھی۔‘
بھارت کے کچھ حصوں میں دلہن خریدنے کی رسم اب بھی ہے اور ہریانہ میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔
خواتین کے متعلق قدیم زمانے سے چلے آنے والے تعصبات اور الٹراساؤنڈ کے ذریعے رحم مادر میں ہی بچے کے جنس کی جانچ کی جدید ٹیکنالوجی کے سبب بچیوں کو پیدائش سے قبل ہی اسقاطِ حمل کے ذریعے پیدا ہونے سے باز رکھنا ممکن ہو گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کے کچھ حصوں میں خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے خاطر خواہ کم ہے۔
جنسی تعصبات کے بیج اتنے گہرے ہیں کہ پیدائش سے قبل بھی لڑکے اور لڑکیوں میں امتیاز برتا جاتا ہے
بہتر زندگی کی امید میں ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور انھیں شادی کے لیے بیچ دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو انھیں اغوا بھی کر لیا جاتا ہے۔
دلال اس طرح پیسہ بنا لیتے ہیں لیکن متاثرہ خواتین کو تا حیات تشدد اور جنسی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک دلال نے بتایا: ’میں نے خود اپنے لیے ایک دوسرے دلال کے ذریعے بیوی خریدی اور اس کے بعد میں نے اپنے خاندان کے گزر بسر کے لیے یہی کام شروع کر دیا۔‘
اس دلال کا خیال ہے کہ وہ ایک اچھا کام کر رہا ہے اور اس سے دونوں فریقوں کا بھلا ہوتا ہے۔
ایک سڑک کے کنارے جھوپڑی بنا کر اپنے بچوں کے ساتھ رہنے والی روشنی کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کی موت کے بعد انھیں گھر سے نکال دیا گیا۔
شوہر کے بھائی نے زبردستی شادی کرنی چاہی لیکن روشنی نے انکار کر دیا۔
یہاں جنسی تعصبات کے بیج اتنے گہرے ہیں کہ پیدائش سے قبل بھی لڑکے اور لڑکیوں میں امتیاز برتا جاتا ہے۔

0 comments: